سنن النسائي - حدیث 53

ذِكْرُ الْفِطْرَةِ تَرْكُ التَّوْقِيتِ فِي الْمَاءِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أَعْرَابِيًّا بَالَ فِي الْمَسْجِدِ فَقَامَ عَلَيْهِ بَعْضُ الْقَوْمِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعُوهُ لَا تُزْرِمُوهُ فَلَمَّا فَرَغَ دَعَا بِدَلْوٍ فَصَبَّهُ عَلَيْهِ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ يَعْنِي لَا تَقْطَعُوا عَلَيْهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 53

کتاب: امور فطرت کا بیان پانی میں کوئی حد بندی نہیں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایک دیہاتی آدمی نے مسجد نبوی میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ کچھ لوگ اس کی طرف بڑھے(تاکہ اسے روکیں۔) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے رہنے دو اور اس کا پیشاب نہ روکو۔‘‘ جب وہ پیشاب سے فارغ ہوا تو آپ نے پانی سے بھرا ہوا ڈول منگوایا اور پیشاب پر بہا دیا۔ ابو عبدالرحمٰن (امام نسائی) رحمہ اللہ نے فرمایا: [لا تزرموہ] کے معنی ہیں: ’’اس کا پیشاب نہ روکو۔‘‘
تشریح : (۱) اس باب میں بعض روایات ایسی بھی ہیں جو مذکورہ احادیث (پچھلے باب کے تحت) میں بیان شدہ تحدید سے خالی یا ظاہراً اس کے خلاف محسوس ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک حدیث حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے جامع ترمذی، سنن ابوداود اور سنن نسائی کے بعض نسخوں میں مروی ہے، فرماتے ہیں: [قیل: یا رسول اللہ! نتو ضا من بئر بضاعۃ، وھی بئر یلقی فیھا الحیض ولحوم الکلاب والنتن؟ فقال رسول اللہ: ان الماء طھور لا ینجسہ شی] اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ہم بضاعہ کے کنویں سے وضو کر لیا کریں؟ کیونکہ اس میں حیض کے چیتھڑے، کتوں کا گوشت اور بدبو دار چیزیں پھینکی جاتی ہیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اتنا کھلا) پانی طاہر اور مطہر رہتا ہے، ایسی کوئی چیز اسے پلید نہیں کرتی۔‘‘ (جامع الترمذی، الطھارۃ، حدیث: ۶۶، و سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: ۶۶) (۲) بئر بضاعہ ایک محلے کا کنواں تھا جس کے اردگرد منڈیر بلند نہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ چیزیں آندھی یا بارشی پانی کی وجہ سے کنویں میں گر جاتی تھیں نہ کہ انھیں قصداً ڈالا جاتا تھا کیونکہ صحابۂ کرام ؓ جیسی جماعت سے اس کا تصور بھی محال ہے اور پھر بعد میں ان چیزوں کو کنویں سے نکال بھی دیا جاتا تھا جیسا کہ رہائشی علاقوں کے کنوؤں میں ہوتا ہے بلکہ مزید پانی نکال کر گندگی کے اثرات بھی ختم کر دیے جاتے ہیں۔ ان وضاحتی قیود کو ذہن میں رکھ کر حدیث کو پڑھا جائے۔ (۳) اس کنویں کا پانی ظاہر ہے کہ کثیر پانی تھا اور دو قلے سے زائد تھا، لہٰذا یہ پلید چیزیں نکالے جانے اور ان کے اثرات ختم کیے جانے کے بعد جب پانی کا رنگ، بو اور ذائقہ صحیح رہتا تھا، تو پانی پلید ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ (۴) حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کو بعض حضرات نے قلتین والی روایت کے مخالف سمجھا ہے کیونکہ ایک ڈول پانی ہر حال میں قلتین سے کم ہے۔ اور پیشاب پر ڈالنے سے وہ پانی پلید نہیں ہوا بلکہ جگہ بھی پاک ہوگئی۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ کسی گندگی پر پانی ڈالنا الگ بات ہے اور پانی پر گنندگی کا واقع ہونا الگ بات ہے۔ اور قلتین والی حدیث پانی میں گندگی پڑنے کی صورت ہے، لہٰذا ان میں کوئی تعارض نہیں، جیسے ہر درندہ جو حرام ہے اس کا جوتھا پلید ہے، مگر بلی کا جوٹھا پاک ہے۔ خاص چیز کے حکم میں کوئی خصوصی مصلحت ہوسکتی ہے جو عام ضابطے کو ختم نہیں کرسکتی۔ متعلقہ مسئلے میں چونکہ پیشاب زمین میں جذب ہوچکا تھا اور ایسی زمین کو نجاست سے مکمل طور پر پاک کرنا ممکن نہ تھا، لہٰذا لوگوں کی تنگی کے پیش نظر ایک ڈول بہانا کافی سمجھا گیا جس سے زمین کی بالائی سطح پر باقی ماندہ پیشاب کے اثرات زائل ہو جائیں اور پانی کےساتھ نیچے چلے جائیں اور سطح زمین صاف ہو جائے۔ (۵) یہ حدیث نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کی اعلیٰ مثال ہے کہ آپ اس کی غیرمہذب حرکت پر اشتعال میں نہیں آئے بلکہ اسے معذور سمجھ کر اپنے پاس بلایا اور پیار سے مسئلہ سمجھایا۔ اس حسن سلوک کا اس شخص نے بعد میں اعلانیہ اظہار کیا۔ (۱) اس باب میں بعض روایات ایسی بھی ہیں جو مذکورہ احادیث (پچھلے باب کے تحت) میں بیان شدہ تحدید سے خالی یا ظاہراً اس کے خلاف محسوس ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک حدیث حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے جامع ترمذی، سنن ابوداود اور سنن نسائی کے بعض نسخوں میں مروی ہے، فرماتے ہیں: [قیل: یا رسول اللہ! نتو ضا من بئر بضاعۃ، وھی بئر یلقی فیھا الحیض ولحوم الکلاب والنتن؟ فقال رسول اللہ: ان الماء طھور لا ینجسہ شی] اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ہم بضاعہ کے کنویں سے وضو کر لیا کریں؟ کیونکہ اس میں حیض کے چیتھڑے، کتوں کا گوشت اور بدبو دار چیزیں پھینکی جاتی ہیں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اتنا کھلا) پانی طاہر اور مطہر رہتا ہے، ایسی کوئی چیز اسے پلید نہیں کرتی۔‘‘ (جامع الترمذی، الطھارۃ، حدیث: ۶۶، و سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: ۶۶) (۲) بئر بضاعہ ایک محلے کا کنواں تھا جس کے اردگرد منڈیر بلند نہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ چیزیں آندھی یا بارشی پانی کی وجہ سے کنویں میں گر جاتی تھیں نہ کہ انھیں قصداً ڈالا جاتا تھا کیونکہ صحابۂ کرام ؓ جیسی جماعت سے اس کا تصور بھی محال ہے اور پھر بعد میں ان چیزوں کو کنویں سے نکال بھی دیا جاتا تھا جیسا کہ رہائشی علاقوں کے کنوؤں میں ہوتا ہے بلکہ مزید پانی نکال کر گندگی کے اثرات بھی ختم کر دیے جاتے ہیں۔ ان وضاحتی قیود کو ذہن میں رکھ کر حدیث کو پڑھا جائے۔ (۳) اس کنویں کا پانی ظاہر ہے کہ کثیر پانی تھا اور دو قلے سے زائد تھا، لہٰذا یہ پلید چیزیں نکالے جانے اور ان کے اثرات ختم کیے جانے کے بعد جب پانی کا رنگ، بو اور ذائقہ صحیح رہتا تھا، تو پانی پلید ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ (۴) حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کو بعض حضرات نے قلتین والی روایت کے مخالف سمجھا ہے کیونکہ ایک ڈول پانی ہر حال میں قلتین سے کم ہے۔ اور پیشاب پر ڈالنے سے وہ پانی پلید نہیں ہوا بلکہ جگہ بھی پاک ہوگئی۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ کسی گندگی پر پانی ڈالنا الگ بات ہے اور پانی پر گنندگی کا واقع ہونا الگ بات ہے۔ اور قلتین والی حدیث پانی میں گندگی پڑنے کی صورت ہے، لہٰذا ان میں کوئی تعارض نہیں، جیسے ہر درندہ جو حرام ہے اس کا جوتھا پلید ہے، مگر بلی کا جوٹھا پاک ہے۔ خاص چیز کے حکم میں کوئی خصوصی مصلحت ہوسکتی ہے جو عام ضابطے کو ختم نہیں کرسکتی۔ متعلقہ مسئلے میں چونکہ پیشاب زمین میں جذب ہوچکا تھا اور ایسی زمین کو نجاست سے مکمل طور پر پاک کرنا ممکن نہ تھا، لہٰذا لوگوں کی تنگی کے پیش نظر ایک ڈول بہانا کافی سمجھا گیا جس سے زمین کی بالائی سطح پر باقی ماندہ پیشاب کے اثرات زائل ہو جائیں اور پانی کےساتھ نیچے چلے جائیں اور سطح زمین صاف ہو جائے۔ (۵) یہ حدیث نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کی اعلیٰ مثال ہے کہ آپ اس کی غیرمہذب حرکت پر اشتعال میں نہیں آئے بلکہ اسے معذور سمجھ کر اپنے پاس بلایا اور پیار سے مسئلہ سمجھایا۔ اس حسن سلوک کا اس شخص نے بعد میں اعلانیہ اظہار کیا۔