سنن النسائي - حدیث 5249

كِتَاب الزِّينَةِ وَصْلُ الشَّعْرِ بِالْخِرَقِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ الْقَعْقَاعِ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ مُعَاوِيَةَ أَنَّهُ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَاكُمْ عَنْ الزُّورِ قَالَ وَجَاءَ بِخِرْقَةٍ سَوْدَاءَ فَأَلْقَاهَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ فَقَالَ هُوَ هَذَا تَجْعَلُهُ الْمَرْأَةُ فِي رَأْسِهَا ثُمَّ تَخْتَمِرُ عَلَيْهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5249

کتاب: زینت سے متعلق احکام و مسائل دھجی سے بال جوڑنا حضرت معاویہ﷜ نے فرمایا : اے لوگو! نبی اکرم ﷺ نے تمہیں جعلی بال لگانے سے منع فرمایا ہے ۔ پھر آپ ایک سیاہ رنگ کا کپڑ لائے اور لوگوں کے سامنے پھینکا اور فرمایا : یہ ہے وہ جعل سازی ۔ عورت اسے اپنے بالوں میں لگاتی ہے ۔ پھر اوپر سے اوڑھنی اوڑھ لیتی ہے ۔
تشریح : 1۔ ’’خرق‘‘ اس کا مفرد خرقۃ ہے ،یعنی دھجی (کپڑے کی لمبی پٹی ) ۔ 2۔ ’’اوڑھ لیتی ہے ‘‘ تاکہ جعل سازی کاپتا نہ چلے اور بال زیادہ محسوس ہوں ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بالوں میں کسی چیز کا اضافہ درست نہیں خواہ دوسری چیز بال ہوں یا کپڑے کے ٹکڑے جن سے کسی کو بالوں کی کثرت کا دھوکا دیا جاسکے ۔ البتہ بالوں کوقابو کرنے کے لیے دھاگے وغیرہ کا پر اندہ استعمال کیا جاسکتا ہے خواہ وہ سیاہ ہی ہو کیونکہ اس سے دھوکا دہی نہیں ہوتی ۔ وہ سر پر نہیں ہوتا کہ کثرت کاگمان ہو بلکہ وہ پشت پر لٹکتا ہے نیز اسے دیکھنے سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہ بال نہیں دھاگا ہے ۔ 3۔ اس حدیث کا ترجمہ ایک اورانداز سے بھی ممکن ہے کہ ’’آپ سیاہ رنگ کا کپڑالائے اور لوگوں کے سامنے پھینکا اور فرمایا : اسے عورت اپنے بالوں میں لگاسکتی ہے ۔ اوپر سے اوڑھنی اور‎ڑھ لے ۔ ‘‘ اس صورت میں سیاہ رنگ کے کپڑے سے مراد پراندہ ہی ہے کہ اس کا استعمل جائز ہے ۔ حدیث کا مقصد یہ ہو گا کہ جعلی بال ملانے درست نہیں کیونکہ ان سے دھوکا دہی ہوتی ہے ۔ البتہ کپڑایاپراندہ وغیرہ لگالیا جائے تاکہ بال منتشر نہ ہوں اور انہیں اس کے ساتھ باندھ لیا جائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ کپڑے کے ساتھ جعل سازی ممکن نہیں ۔ وہ دور ہی سے بالوں سے مختلف نظر آتا ہے اور اس کا مقصد بھی سمجھ میں آتا ہے ۔ پہلا ترجمہ الفاظ کے زیادہ قریب ہے ۔ واللہ اعلم . 1۔ ’’خرق‘‘ اس کا مفرد خرقۃ ہے ،یعنی دھجی (کپڑے کی لمبی پٹی ) ۔ 2۔ ’’اوڑھ لیتی ہے ‘‘ تاکہ جعل سازی کاپتا نہ چلے اور بال زیادہ محسوس ہوں ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بالوں میں کسی چیز کا اضافہ درست نہیں خواہ دوسری چیز بال ہوں یا کپڑے کے ٹکڑے جن سے کسی کو بالوں کی کثرت کا دھوکا دیا جاسکے ۔ البتہ بالوں کوقابو کرنے کے لیے دھاگے وغیرہ کا پر اندہ استعمال کیا جاسکتا ہے خواہ وہ سیاہ ہی ہو کیونکہ اس سے دھوکا دہی نہیں ہوتی ۔ وہ سر پر نہیں ہوتا کہ کثرت کاگمان ہو بلکہ وہ پشت پر لٹکتا ہے نیز اسے دیکھنے سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہ بال نہیں دھاگا ہے ۔ 3۔ اس حدیث کا ترجمہ ایک اورانداز سے بھی ممکن ہے کہ ’’آپ سیاہ رنگ کا کپڑالائے اور لوگوں کے سامنے پھینکا اور فرمایا : اسے عورت اپنے بالوں میں لگاسکتی ہے ۔ اوپر سے اوڑھنی اور‎ڑھ لے ۔ ‘‘ اس صورت میں سیاہ رنگ کے کپڑے سے مراد پراندہ ہی ہے کہ اس کا استعمل جائز ہے ۔ حدیث کا مقصد یہ ہو گا کہ جعلی بال ملانے درست نہیں کیونکہ ان سے دھوکا دہی ہوتی ہے ۔ البتہ کپڑایاپراندہ وغیرہ لگالیا جائے تاکہ بال منتشر نہ ہوں اور انہیں اس کے ساتھ باندھ لیا جائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ کپڑے کے ساتھ جعل سازی ممکن نہیں ۔ وہ دور ہی سے بالوں سے مختلف نظر آتا ہے اور اس کا مقصد بھی سمجھ میں آتا ہے ۔ پہلا ترجمہ الفاظ کے زیادہ قریب ہے ۔ واللہ اعلم .