سنن النسائي - حدیث 5238

كِتَاب الزِّينَةِ تَسْكِينُ الشَّعْرِ صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عِيسَى عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ أَتَانَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَأَى رَجُلًا ثَائِرَ الرَّأْسِ فَقَالَ أَمَا يَجِدُ هَذَا مَا يُسَكِّنُ بِهِ شَعْرَهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5238

کتاب: زینت سے متعلق احکام و مسائل بالوں کو (تیل او رکنگھی وغیرہ سے ) سنوارنا حضرت جابر بن عبد اللہ ﷜ نے فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے ۔ آپ نے ایک آدمی کو دیکھا جس کے سر کےبال بکھرے ہوئے تھے ۔ آپ نے ( ناپسند کرتے ہوئے ) فرمایا: ’’کیا اسے کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جس سے اپنے بالوں کو سنوار سکے ۔‘‘
تشریح : 1۔ مقصد یہ ہے کہ جب کوئی شخص لمبے بال اور زلفیں رکھے تو اسے چاہیے کہ ان کی عزت کرے ، یعنی انہیں سنوارنے کر رکھے ، تیل لگائے اور کنگھی کرے ، نیز انہیں پراگندہ ہونے سے محفوظ رکھے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : [ من كان له شعر فليكرمه ] ’’جس شخص نے بال رکھے ہوٹ تو اسے چاہیے کہ ان کی عزت کرے ، یعنی انہیں بنا سنوار کر رکھے ۔ ‘‘ ( سنن ابی داؤد ، الترجل ،باب فی اصلاح الشعر ، حدیث: 4163، وقال الالبانی حسن صحیح ) بالوں کی عزت یعنی انہیں سنوارنے کا یہ مفہوم قطعاً نہیں کہ ایک شیشہ اور کنگھی ہمیشہ جیب کی زینت بنی رہے ۔ اس حوالے سے کچھ روایات بھی منقول ہیں لیکن وہ درجہ صحت کو نہیں پہنچیں ۔ ہاں بوقت ضرورت ان کا خیال کیا جائے ، اور اس کی حد ایک دن چھوڑ کر کنگھی کرناہے بلاناغہ ٹیپ ٹاپ کی ممانعت ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن مغفل ﷜ فرماتے ہیں : [أن رسول الهل ﷺ نهي عن الترجل إلا غبا] ( سنن ابی داؤد ، الترجل ،باب النهى عن كثير من الإرفاء ، حدیث: 4159) ’’رسول اکرم ﷺ نے ہمیں روزانہ کنگھی کرنے سے منع فرمایا ۔ ‘‘ 2۔ میلا کچیلا رہنا اور بالوں کو نہ سنوارنا زہد ہے نہ سادگی بلکہ یہ حماقت اور جہالت ہے ، جو کسی بھی طرح ایک باوقار اور قابل احترام مسلمان کے لائق نہیں ۔ اسلام انتہائی صاف ستھرا اور پاکیزہ دین ہے اور اپنے پیروکاروں سے بھی پاکیزگی اور صاف ستھرائی کا تقاضا کرتا ہے ۔مزید برآں رسول کریم ﷺ کاارشادگرامی ہے :[ إن الله يحب الجمال ] ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ حسین و جمیل ہے اور حسن و جمال کو پسند فرماتا ہے ۔‘‘ ( مسند احمد:4/ 133،134) 1۔ مقصد یہ ہے کہ جب کوئی شخص لمبے بال اور زلفیں رکھے تو اسے چاہیے کہ ان کی عزت کرے ، یعنی انہیں سنوارنے کر رکھے ، تیل لگائے اور کنگھی کرے ، نیز انہیں پراگندہ ہونے سے محفوظ رکھے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : [ من كان له شعر فليكرمه ] ’’جس شخص نے بال رکھے ہوٹ تو اسے چاہیے کہ ان کی عزت کرے ، یعنی انہیں بنا سنوار کر رکھے ۔ ‘‘ ( سنن ابی داؤد ، الترجل ،باب فی اصلاح الشعر ، حدیث: 4163، وقال الالبانی حسن صحیح ) بالوں کی عزت یعنی انہیں سنوارنے کا یہ مفہوم قطعاً نہیں کہ ایک شیشہ اور کنگھی ہمیشہ جیب کی زینت بنی رہے ۔ اس حوالے سے کچھ روایات بھی منقول ہیں لیکن وہ درجہ صحت کو نہیں پہنچیں ۔ ہاں بوقت ضرورت ان کا خیال کیا جائے ، اور اس کی حد ایک دن چھوڑ کر کنگھی کرناہے بلاناغہ ٹیپ ٹاپ کی ممانعت ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن مغفل ﷜ فرماتے ہیں : [أن رسول الهل ﷺ نهي عن الترجل إلا غبا] ( سنن ابی داؤد ، الترجل ،باب النهى عن كثير من الإرفاء ، حدیث: 4159) ’’رسول اکرم ﷺ نے ہمیں روزانہ کنگھی کرنے سے منع فرمایا ۔ ‘‘ 2۔ میلا کچیلا رہنا اور بالوں کو نہ سنوارنا زہد ہے نہ سادگی بلکہ یہ حماقت اور جہالت ہے ، جو کسی بھی طرح ایک باوقار اور قابل احترام مسلمان کے لائق نہیں ۔ اسلام انتہائی صاف ستھرا اور پاکیزہ دین ہے اور اپنے پیروکاروں سے بھی پاکیزگی اور صاف ستھرائی کا تقاضا کرتا ہے ۔مزید برآں رسول کریم ﷺ کاارشادگرامی ہے :[ إن الله يحب الجمال ] ’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ حسین و جمیل ہے اور حسن و جمال کو پسند فرماتا ہے ۔‘‘ ( مسند احمد:4/ 133،134)