سنن النسائي - حدیث 5163

كِتَابُ الزِّينَةِ مِنَ السُّنَنِ تَحْرِيمُ الذَّهَبِ عَلَى الرِّجَالِ صحيح أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ غُرَابٍ قَالَ حَدَّثَنَا بَيْهَسُ بْنُ فَهْدَانَ قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُو شَيْخٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لُبْسِ الذَّهَبِ إِلَّا مُقَطَّعًا قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ حَدِيثُ النَّضْرِ أَشْبَهُ بِالصَّوَابِ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5163

کتاب: سنن کبری سے زینت کے متعلق احکام و مسائل مردوں پر سونا حرام ہے حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے سونے کے استعمال سے منع فرمایا الا یہ کہ وہ بکھرا ہوا ہو۔ ابوعبدالرحمن ( امام نسائی﷫) نے کہا کہ نضر( ابن شمیل) کی حدیث زیادہ درست ہے۔
تشریح : 1۔امام نسائی کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ مذکورہ روایت سے پہلی روایت ( حدیث: 5162)زیادہ درست ہے جو کہ نضربن شمیل بیہس بن فہد ان سے ، وہ ابوشیخ ہنائی سے اور وہ حضرت معاویہ﷜ سے بیان کرتے ہیں جبکہ مذکورہ روایت: 5163 جو کہ علی بن غراب نے بیہس بن فہدان سے ، اس نے ابوشیخ سےاور اس نےحضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کی ہے، یہ روایت ابن عمر کی مسند کے طور پر تو ضعیف ہے، تاہم اس کا متن حضرت معاویہ ﷜ کی مسند کی وجہ سے صحیح ہے۔ نضربن شمیل علی بن غراب سے کہیں زیادہ حافظ اور اثبت ہے جبکہ علی بن غراب تو ضعیف و مدلس اور شیعہ تھا۔ واللہ اعلم۔ 2۔ ترجمے میں چونکہ سند ذکر نہیں ہوتی ، لہذا قارئین کےلیے ایک روایت کا اس قدر زیادہ تکرار ملال و اکتاہٹ کا باعث بنتا ہے اور انہیں یہ بے فائدہ معلوم ہوتا ہے لیکن امام نسائی﷫ نے مقصود سند کے بیان میں اختلاف ظاہر کرنا ہے جو حدیث کی حیثیت جانچنے کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے اور محدثین کے نزدیک یہ انتہائی، قیمتی مفید اور دلچسپ چیز ہوتی ہے۔ 1۔امام نسائی کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ مذکورہ روایت سے پہلی روایت ( حدیث: 5162)زیادہ درست ہے جو کہ نضربن شمیل بیہس بن فہد ان سے ، وہ ابوشیخ ہنائی سے اور وہ حضرت معاویہ﷜ سے بیان کرتے ہیں جبکہ مذکورہ روایت: 5163 جو کہ علی بن غراب نے بیہس بن فہدان سے ، اس نے ابوشیخ سےاور اس نےحضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کی ہے، یہ روایت ابن عمر کی مسند کے طور پر تو ضعیف ہے، تاہم اس کا متن حضرت معاویہ ﷜ کی مسند کی وجہ سے صحیح ہے۔ نضربن شمیل علی بن غراب سے کہیں زیادہ حافظ اور اثبت ہے جبکہ علی بن غراب تو ضعیف و مدلس اور شیعہ تھا۔ واللہ اعلم۔ 2۔ ترجمے میں چونکہ سند ذکر نہیں ہوتی ، لہذا قارئین کےلیے ایک روایت کا اس قدر زیادہ تکرار ملال و اکتاہٹ کا باعث بنتا ہے اور انہیں یہ بے فائدہ معلوم ہوتا ہے لیکن امام نسائی﷫ نے مقصود سند کے بیان میں اختلاف ظاہر کرنا ہے جو حدیث کی حیثیت جانچنے کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے اور محدثین کے نزدیک یہ انتہائی، قیمتی مفید اور دلچسپ چیز ہوتی ہے۔