سنن النسائي - حدیث 515

كِتَابُ الْمَوَاقِيتِ مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَتَيْنِ مِنْ الْعَصْرِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ قَالَ سَمِعْتُ مَعْمَرًا عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَتَيْنِ مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ أَوْ رَكْعَةً مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 515

کتاب: اوقات نماز سے متعلق احکام و مسائل جس نے عصر کی دو رکعات پا لیں(اس نے نماز پا لی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے عصر کی دورکعتیں سورج غروب ہونے سے پہلے پڑھ لیں یا صبح کی ایک رکعت سورج طلوع ہونے سے پہلے پڑھ لی تو اس نے نمازپالی۔‘‘
تشریح : (۱)حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نما ز کا آغاز معتبر ہے، نہ کہ اختتام، یعنی جس نے نماز وقت میں شروع کرلی اور کم از کم ایک رکعت وقت پر پڑھ لی تو اس کی نماز ادا سمجھی جائے گی، نہ کہ قضا۔ (۲)اگر ایسی صورت حال پیدا ہوجائے تو نماز کے دوران میں سورج کے طلوع یا غروب ہونے سے نماز فاسد نہ ہوگی بلکہ نماز جاری رکھے اور مکمل کرے۔ جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے۔ احناف نے فرق کیا ہے کہ فجر کی نماز پڑھتے پڑھتے سورج طلوع ہوجائے تو نماز فاسد ہوجائے گی کیونکہ مکرو وقت نماز کے اندر شروع ہوگیا، البتہ عصر کی نماز میں سورج غروب ہوجائے تو نماز فاسد نہ ہوگی کیونکہ غروب سے پہلے بھی مکروہ وقت ہی تھا۔ لیکن یہ استدلال اور فرق بہت سی احادیث کے خلاف ہے اور یہ ایک قیاسی بات ہے جو نص کے مقابلے میں معتبر نہیں، اسی لیے اہل علم نے اسے قبول نہیں کیا۔ (۳)احناف نے اس اعتراض سے بچنے کے لیے اس حدیث کے معنی یہ کیے ہیں کہ جس شخص نے ایک رکعت کا وقت پالیا، اس پر پوری نماز کا پڑھنا فرض ہے۔ مگر بعض روایات میں یہ صراحت ہے: [فلیتم صلاتہ] ’’وہ اپنی نماز پوری کرے۔‘‘ دیکھیے: (صحیح البکاری، مواقیت الصلاۃ، حدیث:۵۵۶) حدیث:۵۱۷ میں بھی یہ صراحت موجود ہے۔ یہ الفاظ ان کی اس تاویل کو رد کرتے ہیں۔ (۳)اس حدیث میں عصر کی دو رکعت پانے کا ذکر ہے جب کہ دیگر روایات میں ایک رکعت کا بھی ذکر ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، مواقیت الصلاۃ، حدیث:۵۷۹، وصحیح مسلم، المساجد، حدیث:۶۰۸) لہٰذا دو رکعت مل جائیں یا ایک، حکم یہی ہے۔ (۱)حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نما ز کا آغاز معتبر ہے، نہ کہ اختتام، یعنی جس نے نماز وقت میں شروع کرلی اور کم از کم ایک رکعت وقت پر پڑھ لی تو اس کی نماز ادا سمجھی جائے گی، نہ کہ قضا۔ (۲)اگر ایسی صورت حال پیدا ہوجائے تو نماز کے دوران میں سورج کے طلوع یا غروب ہونے سے نماز فاسد نہ ہوگی بلکہ نماز جاری رکھے اور مکمل کرے۔ جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے۔ احناف نے فرق کیا ہے کہ فجر کی نماز پڑھتے پڑھتے سورج طلوع ہوجائے تو نماز فاسد ہوجائے گی کیونکہ مکرو وقت نماز کے اندر شروع ہوگیا، البتہ عصر کی نماز میں سورج غروب ہوجائے تو نماز فاسد نہ ہوگی کیونکہ غروب سے پہلے بھی مکروہ وقت ہی تھا۔ لیکن یہ استدلال اور فرق بہت سی احادیث کے خلاف ہے اور یہ ایک قیاسی بات ہے جو نص کے مقابلے میں معتبر نہیں، اسی لیے اہل علم نے اسے قبول نہیں کیا۔ (۳)احناف نے اس اعتراض سے بچنے کے لیے اس حدیث کے معنی یہ کیے ہیں کہ جس شخص نے ایک رکعت کا وقت پالیا، اس پر پوری نماز کا پڑھنا فرض ہے۔ مگر بعض روایات میں یہ صراحت ہے: [فلیتم صلاتہ] ’’وہ اپنی نماز پوری کرے۔‘‘ دیکھیے: (صحیح البکاری، مواقیت الصلاۃ، حدیث:۵۵۶) حدیث:۵۱۷ میں بھی یہ صراحت موجود ہے۔ یہ الفاظ ان کی اس تاویل کو رد کرتے ہیں۔ (۳)اس حدیث میں عصر کی دو رکعت پانے کا ذکر ہے جب کہ دیگر روایات میں ایک رکعت کا بھی ذکر ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، مواقیت الصلاۃ، حدیث:۵۷۹، وصحیح مسلم، المساجد، حدیث:۶۰۸) لہٰذا دو رکعت مل جائیں یا ایک، حکم یہی ہے۔