سنن النسائي - حدیث 5146

كِتَابُ الزِّينَةِ مِنَ السُّنَنِ الْكَرَاهِيَةُ لِلنِّسَاءِ فِي إِظْهَارِ الْحُلِيِّ وَالذَّهَبِ صحيح أَخْبَرَنِي الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ بَكْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عَلَيْهَا مَسَكَتَيْ ذَهَبٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا أُخْبِرُكِ بِمَا هُوَ أَحْسَنُ مِنْ هَذَا لَوْ نَزَعْتِ هَذَا وَجَعَلْتِ مَسَكَتَيْنِ مِنْ وَرِقٍ ثُمَّ صَفَّرْتِهِمَا بِزَعْفَرَانٍ كَانَتَا حَسَنَتَيْنِ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ هَذَا غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَاللَّهُ أَعْلَمُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5146

کتاب: سنن کبری سے زینت کے متعلق احکام و مسائل عورتوں کےلیے زیورات اور سونے کی نمائش کی کراہت کابیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان( حضرت عائشہ) کے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن دیکھے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں تجھے اس سے اچھی چیز نہ بتاؤں کہ تو انہیں اتار دے اور چاندی کے دو کنگن بنالے،پھر ان کو زعفران کے ساتھ سنہری بنالے۔ ابوعبدالرحمن ( امام نسائی﷫) نے کہا: یہ( حدیث اس سیاق سے) غیر محفوظ ہے۔ واللہ اعلم
تشریح : 1۔ امام نسائی﷫ کا اس سیاق کو غیر محفوظ کہنا محل نظر ہے۔ یہ حدیث سندا صحیح ہے، اس لیے اس کے غیر محفوظ ہونے کی وجہ نہیں بنتی۔ واللہ اعلم. 2۔سونا بہت قیمتی چیز ہے۔ اتنی مالیت والی چیز کو صرف زیب و زینت کے لیے رکھ چھوڑنا کوئی اچھی بات نہیں جبکہ اللہ تعالی نے اسے تجارت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ باقی رہی زینت! تو وہ اس کے رنگ سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے ، نیز سونے کی زیورات میں نمائش اور فخر کا غالب امکان ہے، لہذا باوجود جواز کے پرہیز بہتر ہے، خصوصاً اہل علم وفضل کےلیے۔ 1۔ امام نسائی﷫ کا اس سیاق کو غیر محفوظ کہنا محل نظر ہے۔ یہ حدیث سندا صحیح ہے، اس لیے اس کے غیر محفوظ ہونے کی وجہ نہیں بنتی۔ واللہ اعلم. 2۔سونا بہت قیمتی چیز ہے۔ اتنی مالیت والی چیز کو صرف زیب و زینت کے لیے رکھ چھوڑنا کوئی اچھی بات نہیں جبکہ اللہ تعالی نے اسے تجارت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ باقی رہی زینت! تو وہ اس کے رنگ سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے ، نیز سونے کی زیورات میں نمائش اور فخر کا غالب امکان ہے، لہذا باوجود جواز کے پرہیز بہتر ہے، خصوصاً اہل علم وفضل کےلیے۔