سنن النسائي - حدیث 5131

كِتَابُ الزِّينَةِ مِنَ السُّنَنِ النَّهْيُ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَشْهَدَ الصَّلَاةَ إِذَا أَصَابَتْ مِنْ الْبَخُورِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامِ بْنِ عِيسَى الْبَغْدَادِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَلْقَمَةَ الْفَرْوِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَصَابَتْ بَخُورًا فَلَا تَشْهَدْ مَعَنَا الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ لَا أَعْلَمُ أَحَدًا تَابَعَ يَزِيدَ بْنَ خُصَيْفَةَ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَلَى قَوْلِهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَقَدْ خَالَفَهُ يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ رَوَاهُ عَنْ زَيْنَبَ الثَّقَفِيَّةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5131

کتاب: سنن کبری سے زینت کے متعلق احکام و مسائل عورت نے خوشبو لگائی ہو تو وہ مسجد میں نماز کے لیے نہیں آسکتی حضرت ابوہریرہ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس عورت نے خوشبو لگائی ہو، وہ ہمارے ساتھ عشاء کی نماز پڑھنے مسجد میں نہ آئے۔ ابو عبدالرحمن (امام نسائی﷫) بیان کرتے ہیں کہ میرے علم کے مطابق یزید بن خصیفہ کی بسر بن سعید سے مروی روایت میں اس ( یزید بن خصیفہ) کے قول عن ابی ہریرہ کی کسی نے متابعت نہیں کی بلکہ یعقوب بن عبداللہ بن اشج نے اس کے برعکس ابوہریرہ کی بجائے اسے زینب ثقفیہ کی مسند قراردیا ہے۔
تشریح : 1۔امام نسائی کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ روایت یزید بن خصیفہ نےبسر بن سعید سے بیان کی ہے اوراسے حضرت ہریرہ﷜ کی مسند بنایا ہے جب کہ ان کے علاوہ کسی نے بھی اسے حضرت ابوہریرہ﷜ کی مسند نہیں بنایا کہ بلکہ یعقوب بن عبداللہ بن اشج نے یزید کی مخالفت کی ہے اوراس روایت کو بسر بن سعید سے بیان کرتے ہوئے ابوہریرہ﷜ کی بجائے حضرت زینب ثقفیہ رضی اللہ عنہا ( حضرت عبداللہ بن مسعود﷜ کی اہلیہ محترمہ) کی مسند بنایا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ امام نسائی﷫ کے نزدیک یعقوب بن عبداللہ بن اشج کی روایت راجح ہے ۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یزیدبن عبداللہ بن خصیفہ ثقہ راوی ہے اور ثقہ راوی کی حدیث میں زیادتی ، جبکہ وہ اوثق کی روایت کے منافی یا اس کے مخالف نہ ہو، تو قابل قبول ہوتی ہے، لہذا یعقوب بن عبداللہ بن اشج کی مخالفت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ واللہ اعلم۔ 2۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ عورتیں نماز پڑھنے کی خاطر مسجد جاسکتی ہیں۔ 3۔ ’بخور‘ ایک قسم کی خوشبو ہے ۔ جب اسے آگ سے سلگا یا جاتا ہے تو خوشبو محسوس ہوتی ہے، جیسے آج کل اگربتی وغیرہ۔ لیکن یہاں عام خوشبو مراد ہے کیونکہ کسی قسم کی خوشبو لگاکر بھی گھر سے باہر جانا عورت کےلیے جائز نہیں ، خواہ مسجد کو جائے یا کہیں اور۔ عشاء کی نماز کا خصوصی ذکر اس لیے کہ اندھیرے میں عورتوں کے لیے خطرہ زیادہ ہوتا ہے یا اس لیے کہ عورتیں اپنے خاوندوں کے لیے عموماً مارات کو خوشبو لگاتی ہیں۔ 1۔امام نسائی کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ روایت یزید بن خصیفہ نےبسر بن سعید سے بیان کی ہے اوراسے حضرت ہریرہ﷜ کی مسند بنایا ہے جب کہ ان کے علاوہ کسی نے بھی اسے حضرت ابوہریرہ﷜ کی مسند نہیں بنایا کہ بلکہ یعقوب بن عبداللہ بن اشج نے یزید کی مخالفت کی ہے اوراس روایت کو بسر بن سعید سے بیان کرتے ہوئے ابوہریرہ﷜ کی بجائے حضرت زینب ثقفیہ رضی اللہ عنہا ( حضرت عبداللہ بن مسعود﷜ کی اہلیہ محترمہ) کی مسند بنایا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ امام نسائی﷫ کے نزدیک یعقوب بن عبداللہ بن اشج کی روایت راجح ہے ۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یزیدبن عبداللہ بن خصیفہ ثقہ راوی ہے اور ثقہ راوی کی حدیث میں زیادتی ، جبکہ وہ اوثق کی روایت کے منافی یا اس کے مخالف نہ ہو، تو قابل قبول ہوتی ہے، لہذا یعقوب بن عبداللہ بن اشج کی مخالفت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ واللہ اعلم۔ 2۔ اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ عورتیں نماز پڑھنے کی خاطر مسجد جاسکتی ہیں۔ 3۔ ’بخور‘ ایک قسم کی خوشبو ہے ۔ جب اسے آگ سے سلگا یا جاتا ہے تو خوشبو محسوس ہوتی ہے، جیسے آج کل اگربتی وغیرہ۔ لیکن یہاں عام خوشبو مراد ہے کیونکہ کسی قسم کی خوشبو لگاکر بھی گھر سے باہر جانا عورت کےلیے جائز نہیں ، خواہ مسجد کو جائے یا کہیں اور۔ عشاء کی نماز کا خصوصی ذکر اس لیے کہ اندھیرے میں عورتوں کے لیے خطرہ زیادہ ہوتا ہے یا اس لیے کہ عورتیں اپنے خاوندوں کے لیے عموماً مارات کو خوشبو لگاتی ہیں۔