سنن النسائي - حدیث 512

كِتَابُ الْمَوَاقِيتِ بَاب التَّشْدِيدِ فِي تَأْخِيرِ الْعَصْرِ صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرِ بْنِ إِيَاسِ بْنِ مُقَاتِلِ بْنِ مُشَمْرِجِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ قَالَ حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ فِي دَارِهِ بِالْبَصْرَةِ حِينَ انْصَرَفَ مِنْ الظُّهْرِ وَدَارُهُ بِجَنْبِ الْمَسْجِدِ فَلَمَّا دَخَلْنَا عَلَيْهِ قَالَ أَصَلَّيْتُمْ الْعَصْرَ قُلْنَا لَا إِنَّمَا انْصَرَفْنَا السَّاعَةَ مِنْ الظُّهْرِ قَالَ فَصَلُّوا الْعَصْرَ قَالَ فَقُمْنَا فَصَلَّيْنَا فَلَمَّا انْصَرَفْنَا قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ تِلْكَ صَلَاةُ الْمُنَافِقِ جَلَسَ يَرْقُبُ صَلَاةَ الْعَصْرِ حَتَّى إِذَا كَانَتْ بَيْنَ قَرْنَيْ الشَّيْطَانِ قَامَ فَنَقَرَ أَرْبَعًا لَا يَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 512

کتاب: اوقات نماز سے متعلق احکام و مسائل عصر کو دیر سے پڑھنے پر سختی حضرت علاء بن عبدالرحمٰن نے کہا کہ وہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس بصرہ میں ان کے گھر گئے جب کہ وہ (علاء) ظہر سے فارغ ہوئے تھے، اور حضرت انس کا گھر مسجد کے ساتھ ہی تھا۔ جب ہم آپ کے پاس گئے تو آپ نے فرمایا: کیا تم نے عصر کی نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے کہا: نہیں، ہم تو ظہر کی نماز پڑھ کر آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: پھر عصر کی نماز پڑھو۔ ہم اٹھے اور عصر کی نماز پڑھی۔ جب ہم فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا: میں نےر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’یہ منافق کی نماز ہے۔ وہ بیٹھا عصر کی نماز کا انتظار کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہوجاتا ہے تو وہ اٹھتا ہے، چار ٹھونگے (چونچیں) مارتا ہے اور اس دوران میں اللہ کا ذکر بھی نہیں کرتا مگر تھوڑا۔‘‘
تشریح : (۱)سورج شیطان کے دوسینگوں کے درمیان ہونے سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ غروب کے قریب ہوتا ہے، اس وقت سورج کے پجاری اس کی پوجا کرتے ہیں، یہ شیطانی کام ہے، اس لیے مندرجہ بالا لفظوں سے بیان فرمایا۔ بعض اہل علم نے اسے حقیقت پر محمول کیا ہے کہ طلوع، غوب اور استوا (سر پرہونے) کے قریب شیطان سورج کے پاس آکر کھڑا ہوتا ہے، اس طرح کہ سورج اس کے دو سینگوں کے درمیان ہوتا ہے، تاکہ سورج کے پجاری اس کی بھی پوجا کریں۔ شاید اسی بنا پر مسلمانوں کو ان اوقات میں نماز پڑھنے سے روک دیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔ (۲)’’چار ٹھونگے (چونچیں) مارتا ہے۔‘‘ چونکہ سورج تقریباً غروب ہورہا ہوتا ہے، اس لیے وہ جلدی جلدی نماز پڑھتا ہے۔ دیکھنے میں ایسے لگتا ہے جیسے کوا ٹھونگے مار رہا ہے۔ ارکان کے اذکارواوراد بھی صحیح طرح نہیں پڑھتا کیونکہ رغبت نہیں ہوتی، لہٰذا کچھ پڑھا گیا، کچھ رہ گیا۔ چونکہ رکعتیں چار ہیں، لہٰذا چار ٹھونگے کہا گیا ہے۔ ان میں سجدے گو آٹھ ہیں مگر جلد جلد کرنے کی وجہ سے گویا دونوں مل کر ایک ٹھونگا مارنے کے برابر ہوئے۔ (۳)مومن کی نماز اطمینان، خشوع و خضوع اور اذکار مسنونہ سے مزین ہوتی ہے۔ (۱)سورج شیطان کے دوسینگوں کے درمیان ہونے سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ غروب کے قریب ہوتا ہے، اس وقت سورج کے پجاری اس کی پوجا کرتے ہیں، یہ شیطانی کام ہے، اس لیے مندرجہ بالا لفظوں سے بیان فرمایا۔ بعض اہل علم نے اسے حقیقت پر محمول کیا ہے کہ طلوع، غوب اور استوا (سر پرہونے) کے قریب شیطان سورج کے پاس آکر کھڑا ہوتا ہے، اس طرح کہ سورج اس کے دو سینگوں کے درمیان ہوتا ہے، تاکہ سورج کے پجاری اس کی بھی پوجا کریں۔ شاید اسی بنا پر مسلمانوں کو ان اوقات میں نماز پڑھنے سے روک دیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔ (۲)’’چار ٹھونگے (چونچیں) مارتا ہے۔‘‘ چونکہ سورج تقریباً غروب ہورہا ہوتا ہے، اس لیے وہ جلدی جلدی نماز پڑھتا ہے۔ دیکھنے میں ایسے لگتا ہے جیسے کوا ٹھونگے مار رہا ہے۔ ارکان کے اذکارواوراد بھی صحیح طرح نہیں پڑھتا کیونکہ رغبت نہیں ہوتی، لہٰذا کچھ پڑھا گیا، کچھ رہ گیا۔ چونکہ رکعتیں چار ہیں، لہٰذا چار ٹھونگے کہا گیا ہے۔ ان میں سجدے گو آٹھ ہیں مگر جلد جلد کرنے کی وجہ سے گویا دونوں مل کر ایک ٹھونگا مارنے کے برابر ہوئے۔ (۳)مومن کی نماز اطمینان، خشوع و خضوع اور اذکار مسنونہ سے مزین ہوتی ہے۔