سنن النسائي - حدیث 5109

كِتَابُ الزِّينَةِ مِنَ السُّنَنِ الْمُوتَشِمَاتُ وَذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ وَالشَّعْبِيِّ فِي هَذَا صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ عَنْ عُمَارَةَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أُتِيَ عُمَرُ بِامْرَأَةٍ تَشِمُ فَقَالَ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ سَمِعَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقُمْتُ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَنَا سَمِعْتُهُ قَالَ فَمَا سَمِعْتَهُ قُلْتُ سَمِعْتُهُ يَقُولُ لَا تَشِمْنَ وَلَا تَسْتَوْشِمْنَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5109

کتاب: سنن کبری سے زینت کے متعلق احکام و مسائل رنگ بھروانے والی عورتوں کا بیان اور اس حدیث میں عبداللہ بن مرہ اور شعبی پر اختلاف کا ذکر حضرت ابوہریرہ﷜ نے فرمایا کہ حضرت عمر﷜ کے پاس ایک عورت لائی گئی جو رنگ بھرنے کا کاروبار کرتی تھی۔ آپ نے فرمایا: میں اللہ تعالی کی قسم دے کر تم سے پوچھتا ہوں! کیا تم میں سے کسی نے رسول اللہﷺ سے (اس کی بابت) کچھ سنا ہے؟ میں نے کھڑے ہوکر کہا: اے امیرالمؤمنین! میں نے سنا ہے۔ انہوں نے فرمایا: کیا سنا ہے؟ میں نے کہا: میں نے آپ کو فرماتے سنا ہے: ’نہ رنگ بھرو نہ بھرواؤ۔‘
تشریح : 1۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ امیرالمؤمنین خلیفۂ ثانی سیدنا عمرفاروق﷜ اگرچہ خصائص نبوت کے حامل اور خلیفۂ راشدین ہیں لیکن دینی مسائل میں وہ بھی اپنے اجتہاد سے کچھ کہنے کے بجائے پیش آمدہ مسئلے کی بابت نصوص( قرآن وسنت کے دلائل) تلاش کرتے تھے جیسا کہ مذکورہ حدیث سے واضح ہے۔ 2۔ حضرت ابوہریرہ﷜ نے اس حدیث میں حضرت عمر﷜ کا جو قصہ بیان فرمایا ہے اس کا ایک مقصدیہ بات بتلانا بھی ہے کہ انہیں نصوص، یعنی فرامین رسول ضبط تھے کیونکہ حضرت عمر﷜ ایسے موقع پر خاموش نہیں ہو جاتے تھے بلکہ دوسرے صحابۂکرام﷢ سے بھی تصدیق کرتے اور پوچھتے ۔ لیکن حضرت ابوہریرہ﷜ سے حدیث ہے۔ اگر حضرت عمر﷜ اس کا انکار کرتے تو اس کا یقیناً ذکر ہوتا۔ بلاشبہ سیدنا ابوہریرہ﷜ حافظ الحدیث اور فقیہ صحابئ رسول ہیں۔3۔ یہ حدیث’ خبر واحد‘ کے حجت ہونے کی بھی دلیل ہے۔ 1۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ امیرالمؤمنین خلیفۂ ثانی سیدنا عمرفاروق﷜ اگرچہ خصائص نبوت کے حامل اور خلیفۂ راشدین ہیں لیکن دینی مسائل میں وہ بھی اپنے اجتہاد سے کچھ کہنے کے بجائے پیش آمدہ مسئلے کی بابت نصوص( قرآن وسنت کے دلائل) تلاش کرتے تھے جیسا کہ مذکورہ حدیث سے واضح ہے۔ 2۔ حضرت ابوہریرہ﷜ نے اس حدیث میں حضرت عمر﷜ کا جو قصہ بیان فرمایا ہے اس کا ایک مقصدیہ بات بتلانا بھی ہے کہ انہیں نصوص، یعنی فرامین رسول ضبط تھے کیونکہ حضرت عمر﷜ ایسے موقع پر خاموش نہیں ہو جاتے تھے بلکہ دوسرے صحابۂکرام﷢ سے بھی تصدیق کرتے اور پوچھتے ۔ لیکن حضرت ابوہریرہ﷜ سے حدیث ہے۔ اگر حضرت عمر﷜ اس کا انکار کرتے تو اس کا یقیناً ذکر ہوتا۔ بلاشبہ سیدنا ابوہریرہ﷜ حافظ الحدیث اور فقیہ صحابئ رسول ہیں۔3۔ یہ حدیث’ خبر واحد‘ کے حجت ہونے کی بھی دلیل ہے۔