سنن النسائي - حدیث 5102

كِتَابُ الزِّينَةِ مِنَ السُّنَنِ الْمُتَنَمِّصَاتُ صحيح أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَّامٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُوتَشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5102

کتاب: سنن کبری سے زینت کے متعلق احکام و مسائل بال اکھیڑنے والیاں حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے رنگ بھرنےوالی، بھروانے والی، بال اکھیڑنے والی اور دانتوں کو رگڑ رگڑ کر باریک کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو حسن کی خاطر( اللہ تعالی کی بنائی ہوئی صورت میں) بگاڑ پیدا کرتی ہیں۔
تشریح : 1۔اس حدیث مبارکہ سے جسم کو گودنے، گدوانے اور چہرے یا ابرو وغیرہ سے بال اکھیڑنے کی حرمت ثابت ہوتی ہے ، نیز خوبصورتی کے لیے دانت رگڑنا اور رگڑوانا بھی حرام ہے اور ان سب کی وحۂ حرمت اللہ تعالی کی تخلیق میں تبدیلی کرنا ہے۔2۔ حسن کی خاطر اس قسم کا بناؤ سنگھار حرام ہے، ہاں اگر یہ کام بغرض علاج یا کسی نقص وعیب کے ازالے کی خاطر کیے جائیں تو پھر کوئی حرج نہیں، مثلاً: اگر عورت کے چہرے پر ڈاڑھی اگ آئے تویہ اس کے لیے عیب ہے، اس لیے اس کاازالہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ واللہ اعلم مزید تفصیل کےلیے دیکھئے: ( شرح صحیح مسلم للنووی :14؍150۔152) 3۔ ’بال اکھیڑنا‘ اس کی وضاحت حدیث نمبر:5094 میں گزر چکی ہے۔ یادرہے کہ جن بالوں کو شریعت نے ختم کرنے کا حکم دیا ہے ، وہ اس سے مستثنیٰ ہیں، مثلاً : بغلوں کے بال، نیز جس طرح عورتوں کے لیے مذکورہ بالوں کے علاوہ بال اکھیڑنے منع ہیں، اسی طرح حسن کی خاطر مرد بھی بال نہیں اکھیڑسکتے، مثلاً: ڈاڑھی یا ابرو کے بال اکھیڑنا مردوں کے لیے بھی ممنوع ہیں۔ 1۔اس حدیث مبارکہ سے جسم کو گودنے، گدوانے اور چہرے یا ابرو وغیرہ سے بال اکھیڑنے کی حرمت ثابت ہوتی ہے ، نیز خوبصورتی کے لیے دانت رگڑنا اور رگڑوانا بھی حرام ہے اور ان سب کی وحۂ حرمت اللہ تعالی کی تخلیق میں تبدیلی کرنا ہے۔2۔ حسن کی خاطر اس قسم کا بناؤ سنگھار حرام ہے، ہاں اگر یہ کام بغرض علاج یا کسی نقص وعیب کے ازالے کی خاطر کیے جائیں تو پھر کوئی حرج نہیں، مثلاً: اگر عورت کے چہرے پر ڈاڑھی اگ آئے تویہ اس کے لیے عیب ہے، اس لیے اس کاازالہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ واللہ اعلم مزید تفصیل کےلیے دیکھئے: ( شرح صحیح مسلم للنووی :14؍150۔152) 3۔ ’بال اکھیڑنا‘ اس کی وضاحت حدیث نمبر:5094 میں گزر چکی ہے۔ یادرہے کہ جن بالوں کو شریعت نے ختم کرنے کا حکم دیا ہے ، وہ اس سے مستثنیٰ ہیں، مثلاً : بغلوں کے بال، نیز جس طرح عورتوں کے لیے مذکورہ بالوں کے علاوہ بال اکھیڑنے منع ہیں، اسی طرح حسن کی خاطر مرد بھی بال نہیں اکھیڑسکتے، مثلاً: ڈاڑھی یا ابرو کے بال اکھیڑنا مردوں کے لیے بھی ممنوع ہیں۔