سنن النسائي - حدیث 5101

كِتَابُ الزِّينَةِ مِنَ السُّنَنِ الْمُتَنَمِّصَاتُ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ مُوسَى قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَزْرَةَ عَنْ الْحَسَنِ الْعُرَنِيِّ عَنْ يَحْيَى بْنِ الْجَزَّارِ عَنْ مَسْرُوقٍ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَتْ إِنِّي امْرَأَةٌ زَعْرَاءُ أَيَصْلُحُ أَنْ أَصِلَ فِي شَعْرِي فَقَالَ لَا قَالَتْ أَشَيْءٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ تَجِدُهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ لَا بَلْ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَجِدُهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5101

کتاب: سنن کبری سے زینت کے متعلق احکام و مسائل بال اکھیڑنے والیاں حضرت مسروق سے روایت ہے کہ ایک عورت حضرت عبداللہ بن مسعود﷜ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرے سرکے بال نہ ہونے کے برابر ہیں تو کیا میں جعلی بال لگاسکتی ہوں ؟ انہوں نے فرمایا : نہیں۔وہ کہنے لگی: کیا یہ بات آپ نے رسول اللہﷺ سے سنی یا کتاب اللہ میں پائی ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، میں نے یہ بات رسول اللہﷺ سے بھی سنی اور میں اسے کتاب اللہ میں بھی پاتا ہوں۔ پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
تشریح : 1۔’کتاب اللہ میں پاتا ہوں‘ یعنی انہوں نے قرآن کی اس عمومی دلیل﴿وَما ءاتىكُمُ الرَّ‌سولُ فَخُذوهُ وَما نَهىكُم عَنهُ فَانتَهوا﴾ کے پیش نظر جعلی بال نہ لگانے کو قرآن کا حکم قرار دیا کیونکہ آپ کی بات کو ماننا قرآن کاحکم ہے۔ لیکن اپنے اجتہاد سے مستنبط کیے گئے مسائل کی نسبت اللہ تعالی کی طرف یارسول اللہﷺ کی طرف کرنا درست نہیں ہے، مثلاً: قیاسی مسائل کی بابت کہنا کہ یہ اللہ تعالی یا اس کے رسول ﷺ کا فرمان ہے، یہ درست نہیں، اس لیے اس سے محتاط رہنا بہت ضروری ہے۔ واللہ اعلم۔2۔ یہ حدیث مفصلاً صحیح مسلم میں آتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ تھوڑے بالوں والی عورت بھی جعلی بال نہیں لگاسکتی کیونکہ اس میں جعل سازی اور دھوکا دہی پائی جاتی ہے، نیز تھوڑے زیادہ کی کوئی حدبندی نہیں۔ اس طرح تو ہر عورت کہہ سکتی ہے کہ میرے بال تھوڑے ہیں۔ جو چیز شریعت نے ناجائز اور حرام قرار دی ہے وہ ناجائزاور حرام ہی ہے اس میں قطعاً دوسری کوئی رائے نہیں ۔ واللہ اعلم 1۔’کتاب اللہ میں پاتا ہوں‘ یعنی انہوں نے قرآن کی اس عمومی دلیل﴿وَما ءاتىكُمُ الرَّ‌سولُ فَخُذوهُ وَما نَهىكُم عَنهُ فَانتَهوا﴾ کے پیش نظر جعلی بال نہ لگانے کو قرآن کا حکم قرار دیا کیونکہ آپ کی بات کو ماننا قرآن کاحکم ہے۔ لیکن اپنے اجتہاد سے مستنبط کیے گئے مسائل کی نسبت اللہ تعالی کی طرف یارسول اللہﷺ کی طرف کرنا درست نہیں ہے، مثلاً: قیاسی مسائل کی بابت کہنا کہ یہ اللہ تعالی یا اس کے رسول ﷺ کا فرمان ہے، یہ درست نہیں، اس لیے اس سے محتاط رہنا بہت ضروری ہے۔ واللہ اعلم۔2۔ یہ حدیث مفصلاً صحیح مسلم میں آتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ تھوڑے بالوں والی عورت بھی جعلی بال نہیں لگاسکتی کیونکہ اس میں جعل سازی اور دھوکا دہی پائی جاتی ہے، نیز تھوڑے زیادہ کی کوئی حدبندی نہیں۔ اس طرح تو ہر عورت کہہ سکتی ہے کہ میرے بال تھوڑے ہیں۔ جو چیز شریعت نے ناجائز اور حرام قرار دی ہے وہ ناجائزاور حرام ہی ہے اس میں قطعاً دوسری کوئی رائے نہیں ۔ واللہ اعلم