سنن النسائي - حدیث 5096

كِتَابُ الزِّينَةِ مِنَ السُّنَنِ وَصْلُ الشَّعْرِ بِالْخِرَقِ صحيح أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ قَالَ رَأَيْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَمَعَهُ فِي يَدِهِ كُبَّةٌ مِنْ كُبَبِ النِّسَاءِ مِنْ شَعْرٍ فَقَالَ مَا بَالُ الْمُسْلِمَاتِ يَصْنَعْنَ مِثْلَ هَذَا إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَيُّمَا امْرَأَةٍ زَادَتْ فِي رَأْسِهَا شَعْرًا لَيْسَ مِنْهُ فَإِنَّهُ زُورٌ تَزِيدُ فِيهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5096

کتاب: سنن کبری سے زینت کے متعلق احکام و مسائل جعلی بال ملانا حضرت سعید مقبری﷫ سےروایت ہے کہ میں نے دیکھا، حضرت معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما منبر (مدینہ) پر بیٹھے تھے اور ان کےہاتھ میں جعلی بالوں کا ایک گچھا تھا۔ انہوں نے فرمایا: کیا بات ہے کہ مسلمان عورتیں یہ کام کرتی ہیں؟ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا: جوعورت اپنے سر کے بالوں میں اور بالوں کا اضافہ کرے تو یہ جعلی سازی ہے جس سے وہ اضافہ کررہی ہے۔
تشریح : ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی عورت اپنے سرکے قدرتی اور اصلی بالون کے ساتھ نقلی یا کسی دوسری عورت کے بال جڑوائے تاکہ اس کے بال لمبے نظر آئیں جیسا کہ رسول اللہﷺ کے زریں دور میں بھی عورتیں یہ کام کرتی تھیں، تو ایسا کرنا شرعاً حرام اور ناجائز ہے۔2۔اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے بال جب تک اس کے سرپر موجود ہوں او ران کا پردہ ہے اور غیر محرم لوگوں سے ان کو چھپانا ضروری ہے، تاہم جب وہ الگ ہوجائیں تو وہ انہیں ضائع کرنا اور دفن کرنا ضروری ہے اور نہ غیر محرم مردوں سے چھپانا ضروری ہے جیساکہ حضرت معاویہ﷜ نے اپنے ہاتھ میں عورت کے بالوں کا گچھا پکڑا ہوا تھا اور انہوں نے وہ گچھا لوگوں کے سامنے بھی کیا۔3۔ بدعملی اور معصیت کے مرتکب لوگوں کو ہلاکت وتباہی کے گڑھے میں گرنے سے پہلے متنبہ کرنا، نیز انہیں اس کے خطرناک نتائج سے ڈرانا ضروری ہے تاکہ وہ لوگ اللہ تعالی کے عذاب کا شکار ہونے سے بچ جائیں اور صراط مستقیم کے راہی بن جائیں۔ 4۔دوران خطبہ لوگوں کو دکھانے کےلیے کوئی چیز ہاتھ میں پکڑی جاسکتی ہے، نیز بنی اسرائیل یا دیگر اقوام کی ہلاکت اورتباہی و بربادی کے واقعات، عبرت کے لیے بیان کیے جاسکتے ہیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہوکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کا نتیجہ کس قدر خطرناک اور تباہ کن ہوتا ہے۔5۔ یہ حضرت معاویہ ﷜ کےدور خلافت اور ان کے آخری حج کی بات ہے وہ مدینہ منورہ بھی حاضر ہوئے تھے۔ ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی عورت اپنے سرکے قدرتی اور اصلی بالون کے ساتھ نقلی یا کسی دوسری عورت کے بال جڑوائے تاکہ اس کے بال لمبے نظر آئیں جیسا کہ رسول اللہﷺ کے زریں دور میں بھی عورتیں یہ کام کرتی تھیں، تو ایسا کرنا شرعاً حرام اور ناجائز ہے۔2۔اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے بال جب تک اس کے سرپر موجود ہوں او ران کا پردہ ہے اور غیر محرم لوگوں سے ان کو چھپانا ضروری ہے، تاہم جب وہ الگ ہوجائیں تو وہ انہیں ضائع کرنا اور دفن کرنا ضروری ہے اور نہ غیر محرم مردوں سے چھپانا ضروری ہے جیساکہ حضرت معاویہ﷜ نے اپنے ہاتھ میں عورت کے بالوں کا گچھا پکڑا ہوا تھا اور انہوں نے وہ گچھا لوگوں کے سامنے بھی کیا۔3۔ بدعملی اور معصیت کے مرتکب لوگوں کو ہلاکت وتباہی کے گڑھے میں گرنے سے پہلے متنبہ کرنا، نیز انہیں اس کے خطرناک نتائج سے ڈرانا ضروری ہے تاکہ وہ لوگ اللہ تعالی کے عذاب کا شکار ہونے سے بچ جائیں اور صراط مستقیم کے راہی بن جائیں۔ 4۔دوران خطبہ لوگوں کو دکھانے کےلیے کوئی چیز ہاتھ میں پکڑی جاسکتی ہے، نیز بنی اسرائیل یا دیگر اقوام کی ہلاکت اورتباہی و بربادی کے واقعات، عبرت کے لیے بیان کیے جاسکتے ہیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہوکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کا نتیجہ کس قدر خطرناک اور تباہ کن ہوتا ہے۔5۔ یہ حضرت معاویہ ﷜ کےدور خلافت اور ان کے آخری حج کی بات ہے وہ مدینہ منورہ بھی حاضر ہوئے تھے۔