سنن النسائي - حدیث 5072

كِتَابُ الزِّينَةِ مِنَ السُّنَنِ الْإِذْنُ بِالْخِضَابِ صحيح أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا عَمِّي قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ح و أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى لَا تَصْبُغُ فَخَالِفُوهُمْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5072

کتاب: سنن کبری سے زینت کے متعلق احکام و مسائل بالوں کو رنگنا جائز ہے حضرت ابوہریرہ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہودی اور عیسائی سفید بالوں کو نہیں رنگتے، لہذا تم ان کی مخالفت کرو۔
تشریح : 1۔مخالفت کرنے سے مراد بال رنگنا ہے اور اس کی کئی صورتیں ہیں:٭ان کو سیاہ رنگ سے رنگ لیا جائے۔ لیکن حدیث میں اس کی ممانعت ہے۔٭ حنا، یعنی مہندی سے رنگا جائے اور حنا کا رنگ معروف ہے یعنی سرخ۔٭ حنا اور کتم سے رنگا جائے اور یہ رنگ سیاہی مائل سرخ ہوتا ہے۔2۔ ڈاڑھی اور سرکے بالوں کو رنگنا واجب ہے یا مستحب؟اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے ، تاہم حق یہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں بالوں کو رنگنے ہی کا حکم ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:«ان اليهود والنصارى لايصبغون فخالفوهم» یہودی اورعیسائی اپنے بال نہیں رنگتے، تم ان کی مخالفت کرو، یعنی بالوں کو رنگو۔(صحیح البخاری، اللباس، باب الخضاب، حدیث:5899، وصحیح مسلم، اللباس، باب فی مخالفۃ الیہود فی الصبغ، حدیث:2103) اس حدیث میں مطلقاً مخالفت کاحکم ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ بالوں کو سفید نہ رہنے دو بلکہ ان کو رنگ لو، خواہ کسی رنگ سے ہو، بالوں کو کالا کرنے کے قائل اسی مطلق حکم سے استدلال کرتےہیں لیکن یہ استدلال درست نہیں کیونکہ نبیﷺ نے بالکل سیاہ رنگ کے خضاب سے منع فرمایا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ فتح مکہ والے دن حضرت ابوبکر صدیق﷜ کے والد حضرت ابوقحافہ﷜ کو نبیﷺ کی خدمت میں لایا گیا تو ان کےسر اور ڈاڑھی کے بال ثغامہ بوٹی کی طرح سفید تھے۔ نبی ﷺ نے انہیں دیکھ کر فرمایا:«غيروا هذا بشئ واجتنبوا لسواد» اسے کسی رنگ سے بدل دو لیکن سیاہ رنگ سے بچنا۔ (صحیح مسلم، اللباس، باب استحباب خضاب الشیب.... حدیث:2102) اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوگیا کہ سراور ڈاڑھی کے بالوں کو رنگنے کا حکم تو ہے لیکن کالے رنگ کے علاوہ کسی اور رنگ سے انہیں رنگا جائے گا۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ بالوں کو رنگنا فرض ہے یا مستحب؟تو اس کے متعلق علماء کی دونوں رائے ہیں۔ بعض اہل علم و جوب کے قائل ہیں اور بعض اسے مستحب ہی سمجھتے ہیں ۔ ہمارے خیال میں استحباب والا موقف اقرب الی الصواب ہے۔ حافظ عبدالمنان﷫ ایک استفتا کا جواب دیتے ہوئے رقم طراز ہیں: احادیث میں رسول اللہﷺ کےبالوں کو رنگنے کا بھی ذکر ہے اور نہ رنگنے کا بھی جس سے پتا چلتا ہے کہ آپ کا رنگنے سےمتعلق امرندب( استحباب) پرمحمول ہے، البتہ کل کے کل بال سفید ہوجائیں کوئی ایک بال بھی سیاہ نہ رہے تو پھر رنگنے کی مزیدتاکید ہے جیسا کہ ابوقحافہ، والد ابی بکر رضی اللہ عنہما والی حدیث سے عیاں ہے۔ دیکھئے (احکام ومسائل:1؍531) مولانا صفی الرحمن مبارک پوری﷫ صحیح مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں’ خضاب کا حکم استحباب کےلیے ہونا چاہیے نہ کہ وجوب کے لیے، اس کےلیے کہ حضرت علی، ابی بن کعب، سلمہ بن اکوع اور حضرت انس اور صحابہ کی ایک جماعت نے خضاب کے حکم پر عمل نہیں کیا۔ ﷢۔ مزید برآں یہ کہ ان کے علاوہ دوسرے بہت سے صحابۂ کرام﷢ کا طرز عمل بھی اس پر شاید ہے۔ گویا انہوں نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حضرت ابوبکر﷜ ان میں ممتاز ہیں۔ 1۔مخالفت کرنے سے مراد بال رنگنا ہے اور اس کی کئی صورتیں ہیں:٭ان کو سیاہ رنگ سے رنگ لیا جائے۔ لیکن حدیث میں اس کی ممانعت ہے۔٭ حنا، یعنی مہندی سے رنگا جائے اور حنا کا رنگ معروف ہے یعنی سرخ۔٭ حنا اور کتم سے رنگا جائے اور یہ رنگ سیاہی مائل سرخ ہوتا ہے۔2۔ ڈاڑھی اور سرکے بالوں کو رنگنا واجب ہے یا مستحب؟اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے ، تاہم حق یہ ہے کہ احادیث مبارکہ میں بالوں کو رنگنے ہی کا حکم ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:«ان اليهود والنصارى لايصبغون فخالفوهم» یہودی اورعیسائی اپنے بال نہیں رنگتے، تم ان کی مخالفت کرو، یعنی بالوں کو رنگو۔(صحیح البخاری، اللباس، باب الخضاب، حدیث:5899، وصحیح مسلم، اللباس، باب فی مخالفۃ الیہود فی الصبغ، حدیث:2103) اس حدیث میں مطلقاً مخالفت کاحکم ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ بالوں کو سفید نہ رہنے دو بلکہ ان کو رنگ لو، خواہ کسی رنگ سے ہو، بالوں کو کالا کرنے کے قائل اسی مطلق حکم سے استدلال کرتےہیں لیکن یہ استدلال درست نہیں کیونکہ نبیﷺ نے بالکل سیاہ رنگ کے خضاب سے منع فرمایا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ فتح مکہ والے دن حضرت ابوبکر صدیق﷜ کے والد حضرت ابوقحافہ﷜ کو نبیﷺ کی خدمت میں لایا گیا تو ان کےسر اور ڈاڑھی کے بال ثغامہ بوٹی کی طرح سفید تھے۔ نبی ﷺ نے انہیں دیکھ کر فرمایا:«غيروا هذا بشئ واجتنبوا لسواد» اسے کسی رنگ سے بدل دو لیکن سیاہ رنگ سے بچنا۔ (صحیح مسلم، اللباس، باب استحباب خضاب الشیب.... حدیث:2102) اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوگیا کہ سراور ڈاڑھی کے بالوں کو رنگنے کا حکم تو ہے لیکن کالے رنگ کے علاوہ کسی اور رنگ سے انہیں رنگا جائے گا۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ بالوں کو رنگنا فرض ہے یا مستحب؟تو اس کے متعلق علماء کی دونوں رائے ہیں۔ بعض اہل علم و جوب کے قائل ہیں اور بعض اسے مستحب ہی سمجھتے ہیں ۔ ہمارے خیال میں استحباب والا موقف اقرب الی الصواب ہے۔ حافظ عبدالمنان﷫ ایک استفتا کا جواب دیتے ہوئے رقم طراز ہیں: احادیث میں رسول اللہﷺ کےبالوں کو رنگنے کا بھی ذکر ہے اور نہ رنگنے کا بھی جس سے پتا چلتا ہے کہ آپ کا رنگنے سےمتعلق امرندب( استحباب) پرمحمول ہے، البتہ کل کے کل بال سفید ہوجائیں کوئی ایک بال بھی سیاہ نہ رہے تو پھر رنگنے کی مزیدتاکید ہے جیسا کہ ابوقحافہ، والد ابی بکر رضی اللہ عنہما والی حدیث سے عیاں ہے۔ دیکھئے (احکام ومسائل:1؍531) مولانا صفی الرحمن مبارک پوری﷫ صحیح مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں’ خضاب کا حکم استحباب کےلیے ہونا چاہیے نہ کہ وجوب کے لیے، اس کےلیے کہ حضرت علی، ابی بن کعب، سلمہ بن اکوع اور حضرت انس اور صحابہ کی ایک جماعت نے خضاب کے حکم پر عمل نہیں کیا۔ ﷢۔ مزید برآں یہ کہ ان کے علاوہ دوسرے بہت سے صحابۂ کرام﷢ کا طرز عمل بھی اس پر شاید ہے۔ گویا انہوں نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حضرت ابوبکر﷜ ان میں ممتاز ہیں۔