كِتَابُ الزِّينَةِ مِنَ السُّنَنِ مِنْ السُّنَنِ الْفِطْرَةُ حسن أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا وَكِيعٌ قَالَ حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ مُصْعَبِ بْنِ شَيْبَةَ عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَةٌ مِنْ الْفِطْرَةِ قَصُّ الشَّارِبِ وَقَصُّ الْأَظْفَارِ وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ وَالسِّوَاكُ وَالِاسْتِنْشَاقُ وَنَتْفُ الْإِبْطِ وَحَلْقُ الْعَانَةِ وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ قَالَ مُصْعَبٌ وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةَ
کتاب: سنن کبری سے زینت کے متعلق احکام و مسائل
فطری چیزیں (جن سے زینت حاصل ہوتی ہے)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دس چیزیں فطرت انسانیہ کا تقاضا ہیں: مونچھیں کاٹنا، ناخن تراشنا، انگلیوں کے جوڑوں اور پوروں کو اچھی طرح دھونا، ڈاڑھی پوری رکھنا، مسواک کرنا، ناک میں پانی چڑھانا ( اور ناک کی صفائی کرنا) بغلوں کے بال اکھیڑنا، شرم گاہ کے بال مونڈنا، پانی کے ساتھ استنجا کرنا۔ مصعب بن شیبہ (راوئ حدیث) نے کہا: دسویں چیز میں بھول گیا۔ امید ہے کہ وہ کلی کرنا ہوگا۔
تشریح :
1۔ اس حدیث سے اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ امور فطرت صرف دس چیزیں نہیں بلکہ یہ دس تو کچھ امور فطرت ہیں۔ یہ اس لیے کہ حدیث کے الفاظ ہیں: عشرة من الفطرة، اور لفظ من تبعیض کے لیے ہے یعنی کچھ امور فطرت یہ ہیں نہ کہ سارے امور فطرت کا یہاں احاطہ ہے۔ بعض احادیث میں دس کے بجائے پانچ اشیاء کو امور فطرت کہاگیا ہے،وہاں بھی احاطہ اور حصر مقصود نہیں۔ واللہ اعلم۔2۔ ان دس چیزوں کے فطرت ہونے سے مراد یہ ہے کہ فطرت انسانیہ ان امور کا تقاضا کرتی ہے ۔ فطرت کے معنی سنت بھی کیے گئے ہیں کیونکہ دین اسلام بھی تو فطرت انسانیہ کے عین مطابق ہے۔ تمام انبیاء ان چیزوں پر عمل پیرا رہے۔ ان میں سے اکثر امور کی تفصیل کتاب الطہارۃ میں بیان ہوچکی ہے۔ (دیکھئے، حدیث:3تا15) 3۔ براحم، برجمة کی جمع ہے۔ اس سے مراد وہ تمام جگہیں ہیں جہاں میل کچیل جمع ہوتاہے اور توجہ نہ کی جائے تو پانی وہاں نہیں پہنچتا، مثلاً: انگلیوں کی گرہیں اور پور، جسم کے دیگر جوڑ اور ہتھیلی کی لکیریں وغیرہ۔
1۔ اس حدیث سے اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ امور فطرت صرف دس چیزیں نہیں بلکہ یہ دس تو کچھ امور فطرت ہیں۔ یہ اس لیے کہ حدیث کے الفاظ ہیں: عشرة من الفطرة، اور لفظ من تبعیض کے لیے ہے یعنی کچھ امور فطرت یہ ہیں نہ کہ سارے امور فطرت کا یہاں احاطہ ہے۔ بعض احادیث میں دس کے بجائے پانچ اشیاء کو امور فطرت کہاگیا ہے،وہاں بھی احاطہ اور حصر مقصود نہیں۔ واللہ اعلم۔2۔ ان دس چیزوں کے فطرت ہونے سے مراد یہ ہے کہ فطرت انسانیہ ان امور کا تقاضا کرتی ہے ۔ فطرت کے معنی سنت بھی کیے گئے ہیں کیونکہ دین اسلام بھی تو فطرت انسانیہ کے عین مطابق ہے۔ تمام انبیاء ان چیزوں پر عمل پیرا رہے۔ ان میں سے اکثر امور کی تفصیل کتاب الطہارۃ میں بیان ہوچکی ہے۔ (دیکھئے، حدیث:3تا15) 3۔ براحم، برجمة کی جمع ہے۔ اس سے مراد وہ تمام جگہیں ہیں جہاں میل کچیل جمع ہوتاہے اور توجہ نہ کی جائے تو پانی وہاں نہیں پہنچتا، مثلاً: انگلیوں کی گرہیں اور پور، جسم کے دیگر جوڑ اور ہتھیلی کی لکیریں وغیرہ۔