سنن النسائي - حدیث 5042

كِتَابُ الْإِيمَانِ وَشَرَائِعِهِ عَلَامَةُ الْمُؤْمِنِ صحيح أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ قَالَ الْقَاضِي يَعْنِي ابْنَ الْكَسَّارِ سَمِعْتُ عَبْدَ الصَّمَدِ الْبُخَارِيَّ يَقُولُ حَفْصُ بْنُ عُمَرَ الَّذِي يَرْوِي عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ لَا أَعْرِفُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ سَقَطَ الْوَاوُ مِنْ حَفْصِ بْنِ عَمْرٍو الرَّبَالِيِّ الْمَشْهُورُ بِالرِّوَايَةِ عَنْ الْبَصْرِيِّينَ وَهُوَ ثِقَةٌ ذَكَرَهُ فِي هَذَا الْخَبَرِ فِي حَدِيثِ مَنْصُورِ بْنِ سَعْدٍ فِي بَابِ صِفَةِ الْمُسْلِمِ سَمِعْتُهُ يَقُولُ لَا أَعْلَمُ رَوَى حَدِيثَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ الْمَرْفُوعَ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ بِزِيَادَةِ قَوْلِهِ وَاسْتَقْبَلُوا قِبْلَتَنَا وَأَكَلُوا ذَبِيحَتَنَا وَصَلَّوْا صَلَاتَنَا عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ إِلَّا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْمُبَارَكِ وَيَحْيَى بْنَ أَيُّوبَ الْبَصْرِيَّ وَهُوَ فِي هَذَا الْجُزْءِ فِي بَابِ مَا يُقَاتِلُ النَّاسَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5042

کتاب: ایمان اور اس کے فرائض واحکام کا بیان مومن کی نشانی حضرت انس بن مالک ﷜ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ تم میں سے کوئی شخص کامل مومن نہیں بن سکتا حتیٰ کہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی کچھ پسند کر جو اپنے لیے کرتا ہے ۔،، کتات الایمان اختتام پذیر ہوئی۔ قاضی ابن کسار کہتے ہیں کہ میں نے عبد الصمد بخاری سے سنا، وہ فرماتے تھے کہ حفص بن عمر جو (حدیث:5000میں ) عبد الرحمٰن بن مہدی سے بیان کرتے ہیں میں انھیں نہیں جانتا ۔ہاں اگروہ حفص بن عمر و ربالی ہوں جو عموما بصریوں سے روایت کرتے ہیں تو وہ ثقہ راوی ہیں ۔ قاضی کہتے ہیں کہ انھیں یہ کہتے ہوئےبھی سنا : میں نہیں جانتا کہ انس بن مالک سے مرفوع روایت ہے (امر ت ان اقاتل ....)(واستقبلوا قبلتنا)..... کے اضافے کے ساتھ سوائے عبد اللہ بن مبارک اور یحی ٰ بن ایوب مصری کےکسی نے حیمد الطویل سے بیان کی ہو۔ اور وہ اسی جز میں باب علی مایقاتل الناس کے تحت گزرچکی ہے ۔
تشریح : ہ عبارت یہاں بے محل ہے ۔ حفض بن عمر کی بحث کا تعلق حدیث:5000 سے ہے اور اس میں بھی راجح یہی ہے کہ یہ حفض بن عمر ہی ہے اور عبدالصمد کا دعوائے تصحیف درست نہیں ۔دیکھییے(ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائی :37/249)دوسری بات حدیث:5006سے متعلق ہے ۔اس میں دعوی ٰ کیا گیا ہے کہ (واستقبلو ا قبلتنا ......) کا اضافہ حمید الطویل سے صرف عبد اللہ بن مبارک اور یحیٰ بن ایوب مصری بیان کرتے ہیں تو بھی درست نہیں کیونکہ محمد بن عیسیٰ بھی حمید الطویل سے یہ اضافہ نقل کرتے ہیں جیسا کہ باب تحریم الدم ، حدیث3971 میں ہے ۔تفصیل کے لیے دیکھیے (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی :37/392) ہ عبارت یہاں بے محل ہے ۔ حفض بن عمر کی بحث کا تعلق حدیث:5000 سے ہے اور اس میں بھی راجح یہی ہے کہ یہ حفض بن عمر ہی ہے اور عبدالصمد کا دعوائے تصحیف درست نہیں ۔دیکھییے(ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائی :37/249)دوسری بات حدیث:5006سے متعلق ہے ۔اس میں دعوی ٰ کیا گیا ہے کہ (واستقبلو ا قبلتنا ......) کا اضافہ حمید الطویل سے صرف عبد اللہ بن مبارک اور یحیٰ بن ایوب مصری بیان کرتے ہیں تو بھی درست نہیں کیونکہ محمد بن عیسیٰ بھی حمید الطویل سے یہ اضافہ نقل کرتے ہیں جیسا کہ باب تحریم الدم ، حدیث3971 میں ہے ۔تفصیل کے لیے دیکھیے (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی :37/392)