سنن النسائي - حدیث 5039

كِتَابُ الْإِيمَانِ وَشَرَائِعِهِ الْفِرَارُ بِالدِّينِ مِنْ الْفِتَنِ صحيح أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا مَعْنٌ ح وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ قَالَا حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خَيْرَ مَالِ مُسْلِمٍ غَنَمٌ يَتَّبِعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنْ الْفِتَنِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5039

کتاب: ایمان اور اس کے فرائض واحکام کا بیان دین کو بچانے کے لیے فتنوں سے بھاگنا (بھی ایمان کاجزہے ) حضرت ابو سعید خدری سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’وہ وقت قریب ہے جب مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی جن کو لے کر وہ پہاڑی کی چوٹیوں یا بارشی علاقو ں میں چلا جاآ گا تاکہ اپنے دین کو فتنوں سے بچائے ۔
تشریح : 1۔اپنے دین وایمان کی حفاطت کے لیے فتنوں سے بھاگ جانا بھی شعبہ ہائے ایمان میں سے ایک عظیم شعبہ ہے ،اس لیے بوقت ضرورت ایک ایمان دار شخص کو فتنوں کی آماجگاہ اور فتنہ پرور لوگوں سے اپنادین وایمان بچانے کے لیے راہ فرار اختیار کر لینی چاہیئے ،شرعا اس میں کوئی حرج نہیں ۔ (2)یہ حدیث مبارکہ بکر یاں پالنے اور چرانے وغیرہ کی فضیلت پر بھی دلالت کرتی ہے ،نیز اپنا دین محفوظ کرنے کے لیے الگ تھلگ حتی کہ پہاڑ کی چوٹی کو اپنا مسکن بنالینے کی فضیلت کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ (3)یہ حدیث مبارکہ دلائل نبوت میں سے آپ کی نبوت پر ایک عظیم دلیل ہے کہ جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانے میں فتنوں کی خبر دی تھی بعینہٖ اسی طرح فتنے گاہے گاہے سر اٹھاے رہتے ہیں حتی کہ بسااوفات ایک ذہین وفہیم مومن بھی حیران وششدر ہوتا ہے کہ ان حالات میں اسے کیا کرنا چا ہئیے اور اپنا دین ان فتنوں سے کس طرح بچانا چاہیئے ۔ (4)اسلام میں رہبانیت اور گوشہ نشینی نہیں ، خواہ وہ عبادت کے لیے ہی ہوبلکہ لوگوں میں رہ کر عبادات بجالانا اسلامی طریقہ ہے تاکہ اپنے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی دین پر قائم کرنے کی کوشش کر سکے۔البتہ جب حالات اتنے سنگین ہو جائیں کہ لوگوں میں رہ کر دین پر قائم رہنا ممکن نہ ہو اور اس کے رہنے سے لوگوں کو بھی کوئی شرعی فائدہ نہ ہوتو پھر گوشہ نشینی جائز ہےجیسا کہ حدیث میں بیان ہے ۔ (5)بارشی علاقے سے مراد وادیاں ہیں جہاں بارش کاپانی جمع ہو تا ہے ۔یا وہ جگہیں ہیں جہاں بارشیں زیادہ برستی ہیٔں،پھراس سے مراد بھی پہاڑی علاقے ہی ہوں گے ۔ 1۔اپنے دین وایمان کی حفاطت کے لیے فتنوں سے بھاگ جانا بھی شعبہ ہائے ایمان میں سے ایک عظیم شعبہ ہے ،اس لیے بوقت ضرورت ایک ایمان دار شخص کو فتنوں کی آماجگاہ اور فتنہ پرور لوگوں سے اپنادین وایمان بچانے کے لیے راہ فرار اختیار کر لینی چاہیئے ،شرعا اس میں کوئی حرج نہیں ۔ (2)یہ حدیث مبارکہ بکر یاں پالنے اور چرانے وغیرہ کی فضیلت پر بھی دلالت کرتی ہے ،نیز اپنا دین محفوظ کرنے کے لیے الگ تھلگ حتی کہ پہاڑ کی چوٹی کو اپنا مسکن بنالینے کی فضیلت کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ (3)یہ حدیث مبارکہ دلائل نبوت میں سے آپ کی نبوت پر ایک عظیم دلیل ہے کہ جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانے میں فتنوں کی خبر دی تھی بعینہٖ اسی طرح فتنے گاہے گاہے سر اٹھاے رہتے ہیں حتی کہ بسااوفات ایک ذہین وفہیم مومن بھی حیران وششدر ہوتا ہے کہ ان حالات میں اسے کیا کرنا چا ہئیے اور اپنا دین ان فتنوں سے کس طرح بچانا چاہیئے ۔ (4)اسلام میں رہبانیت اور گوشہ نشینی نہیں ، خواہ وہ عبادت کے لیے ہی ہوبلکہ لوگوں میں رہ کر عبادات بجالانا اسلامی طریقہ ہے تاکہ اپنے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی دین پر قائم کرنے کی کوشش کر سکے۔البتہ جب حالات اتنے سنگین ہو جائیں کہ لوگوں میں رہ کر دین پر قائم رہنا ممکن نہ ہو اور اس کے رہنے سے لوگوں کو بھی کوئی شرعی فائدہ نہ ہوتو پھر گوشہ نشینی جائز ہےجیسا کہ حدیث میں بیان ہے ۔ (5)بارشی علاقے سے مراد وادیاں ہیں جہاں بارش کاپانی جمع ہو تا ہے ۔یا وہ جگہیں ہیں جہاں بارشیں زیادہ برستی ہیٔں،پھراس سے مراد بھی پہاڑی علاقے ہی ہوں گے ۔