سنن النسائي - حدیث 5037

كِتَابُ الْإِيمَانِ وَشَرَائِعِهِ الدِّينُ يُسْرٌ صحيح أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ قَالَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ مَعْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ هَذَا الدِّينَ يُسْرٌ وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَأَبْشِرُوا وَيَسِّرُوا وَاسْتَعِينُوا بِالْغَدْوَةِ وَالرَّوْحَةِ وَشَيْءٍ مِنْ الدَّلْجَةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5037

کتاب: ایمان اور اس کے فرائض واحکام کا بیان دین (پر عمل کرنا )آسان ہے حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’دین آسان ہے ۔جو شخص دین کو سخت بنائے گا ،دین اس پر غالب آجائے گا ،لہذا تم اپنے اعمال درست رکھو ،میا نہ روی اختیار کرو ،خوش رہو۔لوگوں پر آسانی کرو،کچھ سفر پہلے پہر کر لیا کر ،کچھ پچھلے پہر اور کچھ آخررات کو ۔،،
تشریح : (1)’’دین آسان ہے ،،یعنی جواحکام اللہ تعالیٰ نے مشروع فرمائے ہیں ، وہ انسانی طاقت سےباہر نہیں ۔ان پ ریہ آسانی عمل ہو سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالی ٰ وسعت سےزیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔یہ مطلب نہیں کہ جو کام مشکل نظر آئے وہ دین نہیں ہو سکتا کیونکہ بدنیت آدمی کے لیے تو دین کا ہر کام ہی مشکل ہے ۔ (2)’’سخت بنائے گا،، یعنی دین میں طرف اپنی طرف سے سخت احکام وداخل کرے گا یا غلو کرے گا تو ایک وقت آئے گا کہ وہ خود اپنی پیدا کردہ سختی پر پورا نہیں اتر سکے گا۔اور اس کا غلو اس کے گلے کا طوق بن جائے گا۔ (3)’’میانہ روی ،،نوافل کے بارے میں ورنہ فرائض کی ادائیگی تو ہمیشہ ضرور ی ہے ۔نوافل اتنے ہی اختیار کرنے چاہییں جن پر آسانی اور ہمیشہ عمل ہو سکے ۔ (4)’’خوش رہو،،یعنی اللہ تعالیٰ کے ثواب ورحمت پر یقین رکھواور پر امید رہو۔ (5)’’کچھ سفر،،عمل کو سفر سے تشبیہ دی گئی ہے ۔سفر مناسب طریق سے کیاجائے تو مسافر اور سواری دونوں سہولت میں رہتے ہیں اور سفر بھی اچھا کٹتا ہے لیکن اگر سفر کو مسلسل جاری رکھا جائے اور سواری کو تھکادیا جائے تو سفر منقطع ہوجاتا ہے ۔مسافر بھی بیمار پڑجاتا ہے ۔اسی طرح عمل بھی اختیار کیا جائے جس پر سہولت سےعمل ہوسکے ،دیگر فرائض بھی ادا ہوسکیں اور جسم بھی کمزور نہ پڑے ۔عرب معاشرے میں یہ تین اوقات سفر کےلیے بہترین تھے۔باقی اوقات آرام اور کھانے پینے کے لیے ہوتےتھے۔ (1)’’دین آسان ہے ،،یعنی جواحکام اللہ تعالیٰ نے مشروع فرمائے ہیں ، وہ انسانی طاقت سےباہر نہیں ۔ان پ ریہ آسانی عمل ہو سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالی ٰ وسعت سےزیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔یہ مطلب نہیں کہ جو کام مشکل نظر آئے وہ دین نہیں ہو سکتا کیونکہ بدنیت آدمی کے لیے تو دین کا ہر کام ہی مشکل ہے ۔ (2)’’سخت بنائے گا،، یعنی دین میں طرف اپنی طرف سے سخت احکام وداخل کرے گا یا غلو کرے گا تو ایک وقت آئے گا کہ وہ خود اپنی پیدا کردہ سختی پر پورا نہیں اتر سکے گا۔اور اس کا غلو اس کے گلے کا طوق بن جائے گا۔ (3)’’میانہ روی ،،نوافل کے بارے میں ورنہ فرائض کی ادائیگی تو ہمیشہ ضرور ی ہے ۔نوافل اتنے ہی اختیار کرنے چاہییں جن پر آسانی اور ہمیشہ عمل ہو سکے ۔ (4)’’خوش رہو،،یعنی اللہ تعالیٰ کے ثواب ورحمت پر یقین رکھواور پر امید رہو۔ (5)’’کچھ سفر،،عمل کو سفر سے تشبیہ دی گئی ہے ۔سفر مناسب طریق سے کیاجائے تو مسافر اور سواری دونوں سہولت میں رہتے ہیں اور سفر بھی اچھا کٹتا ہے لیکن اگر سفر کو مسلسل جاری رکھا جائے اور سواری کو تھکادیا جائے تو سفر منقطع ہوجاتا ہے ۔مسافر بھی بیمار پڑجاتا ہے ۔اسی طرح عمل بھی اختیار کیا جائے جس پر سہولت سےعمل ہوسکے ،دیگر فرائض بھی ادا ہوسکیں اور جسم بھی کمزور نہ پڑے ۔عرب معاشرے میں یہ تین اوقات سفر کےلیے بہترین تھے۔باقی اوقات آرام اور کھانے پینے کے لیے ہوتےتھے۔