سنن النسائي - حدیث 503

كِتَابُ الْمَوَاقِيتِ آخِرُ وَقْتِ الظُّهْرِ حسن أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ قَالَ أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام جَاءَكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ فَصَلَّى الصُّبْحَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ وَصَلَّى الظُّهْرَ حِينَ زَاغَتْ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ حِينَ رَأَى الظِّلَّ مِثْلَهُ ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ حِينَ غَرَبَتْ الشَّمْسُ وَحَلَّ فِطْرُ الصَّائِمِ ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ حِينَ ذَهَبَ شَفَقُ اللَّيْلِ ثُمَّ جَاءَهُ الْغَدَ فَصَلَّى بِهِ الصُّبْحَ حِينَ أَسْفَرَ قَلِيلًا ثُمَّ صَلَّى بِهِ الظُّهْرَ حِينَ كَانَ الظِّلُّ مِثْلَهُ ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ حِينَ كَانَ الظِّلُّ مِثْلَيْهِ ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ بِوَقْتٍ وَاحِدٍ حِينَ غَرَبَتْ الشَّمْسُ وَحَلَّ فِطْرُ الصَّائِمِ ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ حِينَ ذَهَبَ سَاعَةٌ مِنْ اللَّيْلِ ثُمَّ قَالَ الصَّلَاةُ مَا بَيْنَ صَلَاتِكَ أَمْسِ وَصَلَاتِكَ الْيَوْمَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 503

کتاب: اوقات نماز سے متعلق احکام و مسائل نماز ظہر کا آخری وقت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ جبریل علیہ السلام ہیں جو تمھیں تمھارا دین سکھانے آئے ہیں، پھر جونہی فجر طلوع ہوئی انھوں نے صبح کی نماز اور جب سورج ڈھل گیا تو ظہر کی نماز پڑھائی، پھر عصر کی نماز پڑھائی جب انھوں نے ہر چیز کا سایہ اس کے برابر (زوال کے سائے کے علاوہ) دیکھ لیا، پھر مغرب کی نماز پڑھائی جونہی سورج غروب ہوا اور روزے دار کے لیے روزہ کھولنا حلال ہوگا، پھر عشاء کی نماز پڑھائی جب رات کی سرخی غائب ہوگئی۔ پھر اگلے دن وہ (جبرئیل علیہ السلام) دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو صبح کی نماز پڑھائی جب تھوڑی سی روشنی پھیل گئی تھی، پھر آپ کو ظہر کی نماز پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوگیا، پھر عصر کی نماز پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ دگنا ہوگیا، پھر مغرب کی نماز کل والے وقت ہی پر پڑھائی، یعنی جب سورج غروب ہوگیا اور روزے دار کے لیے روزہ کھولنا حلال ہوگیا، پھر عشاء کی نماز پڑھائی جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا، پھر فرمایا: ہر نماز کا وقت تمھاری کل اور آج کی نماز کا درمیانی وقت ہے۔‘‘
تشریح : (۱)ظہر کی نماز کا آخری وقت اور عصر کی نماز کا اول وقت اس حدیث اور دوسری تمام احادیث صحیحہ کی رو سے مثل اول ہی ہے، یعنی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے مگر یہ برابری زوال کے سائے کو نکال کر ہو۔ زوال کے سائے سے مراد وہ سایہ ہے جو سورج ڈھلنے کے وقت کسی چیز کا ہوتا ہے۔ اس سائے کے علاوہ سایہ اس چیز کے برابر ہوجائے تو ظہر کا وقت ختم اورعصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ یہ جمہور اہل علم، صحابہ ، تابعین، محدثین اور فقہاء کا مذہب ہے۔ مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ظہر کا وقت دو مثل سائے تک رہتا ہے، یعنی جب ہر چیز کا سایہ دگنا ہوجائے۔ لیکن یہ بات نقلی دلائل سے خالی ہے، اس لیے اس مسئلے میں امام صاحب کے شاگرد بھی ان کا ساتھ نہ دے سکے۔ بعض عقلی دلائل ہیں مگر صریح اور صحیح احادیث کے مقابلے میں عقلی دلائل کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ شاذ مذہب ہے۔ بعض احناف نے امام صاحب کی کچھ رعایت کرتے ہوئے مثل اول اور مثل ثانی کے مابین وقت کو ظہر و عصر دونوں کے لیے ناموزوں قرار دیا ہے، لیکن یہ بھی غلط ہے کیونکہ اس بات پر اتفاق ہے کہ ظہر کا آخر وقت اور عصر کا اول وقت متصل ہیں، درمیان میں کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ (۲)عصر کا مختار وقت مثل ثانی پر ختم ہوجاتا ہے جب کہ مجبور و معذور کے لیے غروب آفتاب تک باقی رہتا ہے۔ (۳)مغرب کی نماز دونوں دن تقریباً ایک ہی وقت میں پڑھی کیونکہ مغرب کا وقت دیگر نمازوں کے اوقات کی نسبت کم ہوتا ہے اور غالباً اول وقت ہی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس کا یہ مقصد نہیں کہ فرض نماز سے قبل دو رکعت کی نفی کردی جائے بلکہ وہ نماز بھی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور احادیث میں اس کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ بہرحال اعتدال سے کام لینا چاہیے۔ (۴)پہلے دن کی نماز کے آغاز اور دوسرے دن کی نماز کے اختتام کا درمیانی وقت اس نماز کا پورا وقت ہے لیکن افضل وقت کون سا ہے؟ وہ عشاء کے علاوہ ہر نماز کا اول وقت ہے اور عشاء کو مؤخر کرکے پڑھنا افضل ہے۔ (۵)نماز کی اہمیت اور قدرومنزلت کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایسا عظیم الشان اور اہمیت کا حامل عمل ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کو بھیج کر عملی مشق کرائی، دیگر احکام کی طرح صرف قول پر اکتفا نہیں کیا۔ (۶)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر بذاتِ خود کوئی عمل مشروع قرار نہیں دے سکتے۔ (۷)اللہ تعالیٰ کا فضل عظیم ہے کہ اس نے نمازوں کے اوقات وسیع رکھے، انھیں تنگ نہیں رکھا کہ کہیں لوگ مشقت میں نہ پڑجائیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ فضل عظیم کا مالک ہے۔ (۱)ظہر کی نماز کا آخری وقت اور عصر کی نماز کا اول وقت اس حدیث اور دوسری تمام احادیث صحیحہ کی رو سے مثل اول ہی ہے، یعنی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے مگر یہ برابری زوال کے سائے کو نکال کر ہو۔ زوال کے سائے سے مراد وہ سایہ ہے جو سورج ڈھلنے کے وقت کسی چیز کا ہوتا ہے۔ اس سائے کے علاوہ سایہ اس چیز کے برابر ہوجائے تو ظہر کا وقت ختم اورعصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ یہ جمہور اہل علم، صحابہ ، تابعین، محدثین اور فقہاء کا مذہب ہے۔ مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ظہر کا وقت دو مثل سائے تک رہتا ہے، یعنی جب ہر چیز کا سایہ دگنا ہوجائے۔ لیکن یہ بات نقلی دلائل سے خالی ہے، اس لیے اس مسئلے میں امام صاحب کے شاگرد بھی ان کا ساتھ نہ دے سکے۔ بعض عقلی دلائل ہیں مگر صریح اور صحیح احادیث کے مقابلے میں عقلی دلائل کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ شاذ مذہب ہے۔ بعض احناف نے امام صاحب کی کچھ رعایت کرتے ہوئے مثل اول اور مثل ثانی کے مابین وقت کو ظہر و عصر دونوں کے لیے ناموزوں قرار دیا ہے، لیکن یہ بھی غلط ہے کیونکہ اس بات پر اتفاق ہے کہ ظہر کا آخر وقت اور عصر کا اول وقت متصل ہیں، درمیان میں کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ (۲)عصر کا مختار وقت مثل ثانی پر ختم ہوجاتا ہے جب کہ مجبور و معذور کے لیے غروب آفتاب تک باقی رہتا ہے۔ (۳)مغرب کی نماز دونوں دن تقریباً ایک ہی وقت میں پڑھی کیونکہ مغرب کا وقت دیگر نمازوں کے اوقات کی نسبت کم ہوتا ہے اور غالباً اول وقت ہی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس کا یہ مقصد نہیں کہ فرض نماز سے قبل دو رکعت کی نفی کردی جائے بلکہ وہ نماز بھی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور احادیث میں اس کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ بہرحال اعتدال سے کام لینا چاہیے۔ (۴)پہلے دن کی نماز کے آغاز اور دوسرے دن کی نماز کے اختتام کا درمیانی وقت اس نماز کا پورا وقت ہے لیکن افضل وقت کون سا ہے؟ وہ عشاء کے علاوہ ہر نماز کا اول وقت ہے اور عشاء کو مؤخر کرکے پڑھنا افضل ہے۔ (۵)نماز کی اہمیت اور قدرومنزلت کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایسا عظیم الشان اور اہمیت کا حامل عمل ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کو بھیج کر عملی مشق کرائی، دیگر احکام کی طرح صرف قول پر اکتفا نہیں کیا۔ (۶)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر بذاتِ خود کوئی عمل مشروع قرار نہیں دے سکتے۔ (۷)اللہ تعالیٰ کا فضل عظیم ہے کہ اس نے نمازوں کے اوقات وسیع رکھے، انھیں تنگ نہیں رکھا کہ کہیں لوگ مشقت میں نہ پڑجائیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ فضل عظیم کا مالک ہے۔