سنن النسائي - حدیث 5023

كِتَابُ الْإِيمَانِ وَشَرَائِعِهِ عَلَامَةُ الْمُنَافِقِ صحيح أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَرْبَعَةٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا أَوْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْ الْأَرْبَعِ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5023

کتاب: ایمان اور اس کے فرائض واحکام کا بیان منافق کی علامت حضرت عبد اللہ بن عمر وؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنےفرمایا: ’’چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں (سب کی سب )پائی جائیں ،وہ (خالص) منافق ہوگا اور جس شخث میں ان چار میں سے کوئی ایک پائی جائے ، اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی حتیٰ کہ وہ اسے چھوڑ دے :٭ جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔٭جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے ۔٭جب عہد کرے تو خلاف ورزی کرے ۔٭جب عہد کرے تو بے وفائی کرے ۔ ٭جب لڑائی کرے تو گالی بکے ۔،،
تشریح : (1)حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ ایک مسلمان شخص کو اخلاق رزیلہ سے اجتناب کرنا چاہیئے بالخصوص وہ برے اعمال جن کاحدیث میں ذکر ہواہے ،چیزیں عملی نفاق کو مستلزم ہیں جو تقاضائے ایمان کے باکل منافی ہیں ۔قرآن وحدیث میں کچھ اور علامات نفاق بھی مذکور ہیں ،مثلا :نماز میں سستی کرنا ، دکھلادے کی عبادت کرنا ،دینی معاملات میں تذبذب کاشکار ہوتا نیز ذاتی مفادات ہی کو پیش نظر رکھنا وغیرہ ،تاہم اس حدیث مبارکہ میں بطور خاص جن چار چیزوں کا ذکر کیا گیاہے ان کاتعلق لوگوں کےعام باہمی معاملات سے ہے اور عموما انھی معاملات میں اتار چڑھاؤ باہمی اختلاف وفساد کا سبب بنتا ہے ،اس لیے شریعت مطہرہ نے ان علامات کو نمایا ں طور پر ذکر کیا ہے ۔واللہ اعلم . (2)یہاں منافق سے اعتقادی منافق مراد نہیں کہ اسے دائرہ اسلام ہی سے خارج قرار دے دیا جائے کیونکہ اس (اعتقادی منافق)کا علم وحی کے بغیر نہیں ہوسکتا ،بلکہ اس سے عملی منافق مراد ہے ،یعنی جس کے کام منافقوں جیسے ہوں ۔اور یہ کام واقعی منافقوں کے ہیں ۔مطلب یہ کہ ایسا شخص عملی منافق ہوتاہے ،نیز یہ اس وقت ہےجب یہ خصلتیں اس میں بختہ ہوں اور وہ ان کا عادی بن جائے یعنی جب بھی بات کرے،جھوٹ ہی بولے ۔جب بھی وعدہ کرے ،خلاف ورزی ہی کرے ۔جب بھی عہد کرے ،تو ڑدے وغیرہ کیونکہ کبھی کبھار جھوٹ یا وعدہ خلافی یا گالی گلوچ تو ہر ایک سے ہوسکتے ہیں ۔ اتنے سے کسی کو منافق نہیں کہا جائے گا۔ (1)حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ ایک مسلمان شخص کو اخلاق رزیلہ سے اجتناب کرنا چاہیئے بالخصوص وہ برے اعمال جن کاحدیث میں ذکر ہواہے ،چیزیں عملی نفاق کو مستلزم ہیں جو تقاضائے ایمان کے باکل منافی ہیں ۔قرآن وحدیث میں کچھ اور علامات نفاق بھی مذکور ہیں ،مثلا :نماز میں سستی کرنا ، دکھلادے کی عبادت کرنا ،دینی معاملات میں تذبذب کاشکار ہوتا نیز ذاتی مفادات ہی کو پیش نظر رکھنا وغیرہ ،تاہم اس حدیث مبارکہ میں بطور خاص جن چار چیزوں کا ذکر کیا گیاہے ان کاتعلق لوگوں کےعام باہمی معاملات سے ہے اور عموما انھی معاملات میں اتار چڑھاؤ باہمی اختلاف وفساد کا سبب بنتا ہے ،اس لیے شریعت مطہرہ نے ان علامات کو نمایا ں طور پر ذکر کیا ہے ۔واللہ اعلم . (2)یہاں منافق سے اعتقادی منافق مراد نہیں کہ اسے دائرہ اسلام ہی سے خارج قرار دے دیا جائے کیونکہ اس (اعتقادی منافق)کا علم وحی کے بغیر نہیں ہوسکتا ،بلکہ اس سے عملی منافق مراد ہے ،یعنی جس کے کام منافقوں جیسے ہوں ۔اور یہ کام واقعی منافقوں کے ہیں ۔مطلب یہ کہ ایسا شخص عملی منافق ہوتاہے ،نیز یہ اس وقت ہےجب یہ خصلتیں اس میں بختہ ہوں اور وہ ان کا عادی بن جائے یعنی جب بھی بات کرے،جھوٹ ہی بولے ۔جب بھی وعدہ کرے ،خلاف ورزی ہی کرے ۔جب بھی عہد کرے ،تو ڑدے وغیرہ کیونکہ کبھی کبھار جھوٹ یا وعدہ خلافی یا گالی گلوچ تو ہر ایک سے ہوسکتے ہیں ۔ اتنے سے کسی کو منافق نہیں کہا جائے گا۔