سنن النسائي - حدیث 5013

كِتَابُ الْإِيمَانِ وَشَرَائِعِهِ زِيَادَةُ الْإِيمَانِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مُجَادَلَةُ أَحَدِكُمْ فِي الْحَقِّ يَكُونُ لَهُ فِي الدُّنْيَا بِأَشَدَّ مُجَادَلَةً مِنْ الْمُؤْمِنِينَ لِرَبِّهِمْ فِي إِخْوَانِهِمْ الَّذِينَ أُدْخِلُوا النَّارَ قَالَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِخْوَانُنَا كَانُوا يُصَلُّونَ مَعَنَا وَيَصُومُونَ مَعَنَا وَيَحُجُّونَ مَعَنَا فَأَدْخَلْتَهُمْ النَّارَ قَالَ فَيَقُولُ اذْهَبُوا فَأَخْرِجُوا مَنْ عَرَفْتُمْ مِنْهُمْ قَالَ فَيَأْتُونَهُمْ فَيَعْرِفُونَهُمْ بِصُوَرِهِمْ فَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ النَّارُ إِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ إِلَى كَعْبَيْهِ فَيُخْرِجُونَهُمْ فَيَقُولُونَ رَبَّنَا قَدْ أَخْرَجْنَا مَنْ أَمَرْتَنَا قَالَ وَيَقُولُ أَخْرِجُوا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ دِينَارٍ مِنْ الْإِيمَانِ ثُمَّ قَالَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ نِصْفِ دِينَارٍ حَتَّى يَقُولَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ ذَرَّةٍ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ فَمَنْ لَمْ يُصَدِّقْ فَلْيَقْرَأْ هَذِهِ الْآيَةَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ إِلَى عَظِيمًا(النساء:48)

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5013

کتاب: ایمان اور اس کے فرائض واحکام کا بیان ایمان بڑھنے کا بیان حضرت ابو سعید خدری ﷜ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا :’’تم دنیا میں اپنے حق کی خاطر اتنا نہیں جھگڑتے جتنا جھگڑا مومن اپنے رب تعالی سے اپنے ان مسلمان بھائیوں کے بارے میں کریں گے جوآگ میں داخل کیے جائیں گے۔ وہ (مومن کہیں گے : اے ہمارے رب !یہ ہمارے وہ مسلمان بھائی ہیں جو ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے ، روزے رکھتے تھے اور حج کرتے تھے ۔تو نے ان کو آگ میں ڈال دیا ہے ؟ اللہ تعالی فرمائے گا : جاؤ جنھیں تم پہچانتے ہو ، ان کو نکال لاؤ ۔ وہ جائیں گے اور ان کی صورتو ں سے پہچانیں گے ۔ ان میں سے کسی کو نصف پنڈلیوں تک آگ لگی ہوگی اور کسی کو ٹخنوں تک ۔وہ ان کو نکال لائیں گے اور کہیں گے :اے ہمارے رب !جن کے بارےمیں تو نے فرمایا تھا ،وہ تو ہم نے نکال لیے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ان کو بھی نکالو جن کے دل میں ایک دینار کے برابر بھی ایمان ہے ۔ پھر فرمائے گا : (ان کو بھی نکالو) جن کے دل میں نصف دینار کے برابر ایمان ہے حتی کہ فرائے گا : (ان کو بھی نکالو) جن کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان ہے ۔،، حضرت ابو سعید خدری نے فرمایا : جو شخص اس حدیث کی تصدیق میں متد بذب ہو ،وہ یہ آیت پڑھ لے ( ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ........) ’’یقینا اللہ تعالی ٰ یہ تو معاف نہیں فرمائے گا کہ اس کے ساتھ شریک ٹھہرایا جائے ،البتہ اس سے کم دوسرے گناہ جس کو چاہے گا ،معاف فرمائے گا......،،آخر آیت تک ۔
تشریح : (1)اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اہل ایمان ،یعنی مومن سفارش کریں گے ۔ ان کی شفاعت برحق ہے ، نیز ان کی سفارش قبول ہوگی ۔ (2)اس حدیث سے باہم محبت کرنے کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے کہ مومن ،اس دن جس مال واولاد کو ئی فائدہ نہیں دیں گے، اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے بارگاہ الہٰی میں جھگڑیں گے ۔ اس پر انھیں آمادہ کرنے والی چیز باہمی محبت ہوگی جواللہ تعالی کی رضا کے لیے ایک دوسرے سے کیا کرتے تھے۔ (3)گناہوں اور بداعمالیوں کے تفاوت اور فرق کی بنا پر جہنمیوں کے مابین بھی فرق ہوگا ۔کوئی جہنم کے سخت تر ین طبقے میں اور کوئی اس سے کم تر درجے میں ، کچھ لوگوں کو نصف پنڈلیوں تک آگ لگی ہوگی اور کچھ کو ٹخنوں تک ۔ (4)اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ شرک تمام گناہوں سے بڑا گنا ہ ہے ۔اس سے بڑاگنا ہ کوئی نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ شرک کسی صورت معاف نہیں ہوگا ۔ اس کے علاوہ جتنے کبیرہ گناہ ہیں ان کی معافی ممکن ہے ۔مرنے کے بعد شرک کی معافی ہی نہیں ،اس لیے مشرک وکافر ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ جمہور اہل علم نےاسی آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے کہ قاتل کی معافی بھی ممکن ہے ۔دیگر کبیرہ گناہوں کی طرح وہ بھی اللہ تعالی کی مشیت کے تحت ہے ، اگروہ چاہے تو ناحق قتل کرنے والے قاتل کو بھی معاف فرمادے ۔یہی حق ہے جبکہ حضرت عبد اللہ ؓ ایسے قاتل کی معافی کے قائل نہیں ۔کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اس سے رجوع کرلیا تھا لیکن تحقیق کی روشنی میں ان کے رجوع کا اثبات مشکال ہے ۔واللہ اعلم. (6) ’’پہچانیں گے،،گویا آگ ان کے چہر وں کو نہیں لگے گی جیسا کہ آئندہ کلام سے معلوم ہورہا ہے کیونکہ چہرہ تو سجدے کا مقام ہے ۔وہ نمازی ہو ں گے ۔آگ نماز کے مقامات کو نہیں چھوئے گی یا ان میں بگاڑ پیدانہیں کر سکے گی ۔ (7)’’ہم نے نکال لیے ،، مقصد یہ ہے کہ ابھی بہت سے اور مومن بھی آگ میں جل رہے ہیں ۔ ان کو بھی نکالنے کاحکم صادر فرمایا جائے ۔ (8)اما م صاحب کامقصد ایمان میں کمی بیشی ثابت کرنا ہے جوحدیث سے واضح ہے ۔(دینار کے برابر ،نصف دینار کے برابر ذرہ برابر ۔)جو لوگ ایمان میں کمی بیشی کے قائل نہیں ،وہ یہ کمی بیشی اعمال کی طرف منسوب کرتے ہیں، حالانکہ وہ خوایمان کو دل ہی سے خالص سمجھتے ہیں۔اعمال کا اثر تو اعضاء پر ہوگا۔ (9)’’دینار ،،سونے کاایک سکہ تھا جس کا وزن موجودہ دور کے مطابق چار ماشے چار رتی اور گرام کے حساب 4.374گر ام بنتا ہے ۔ 10۔ذرہ سے مراد غبار کا ذرہ ہے۔بعض نے چیونٹی کا معنیٰ بھی کیا ہے۔واللہ اعلم (1)اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اہل ایمان ،یعنی مومن سفارش کریں گے ۔ ان کی شفاعت برحق ہے ، نیز ان کی سفارش قبول ہوگی ۔ (2)اس حدیث سے باہم محبت کرنے کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے کہ مومن ،اس دن جس مال واولاد کو ئی فائدہ نہیں دیں گے، اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے بارگاہ الہٰی میں جھگڑیں گے ۔ اس پر انھیں آمادہ کرنے والی چیز باہمی محبت ہوگی جواللہ تعالی کی رضا کے لیے ایک دوسرے سے کیا کرتے تھے۔ (3)گناہوں اور بداعمالیوں کے تفاوت اور فرق کی بنا پر جہنمیوں کے مابین بھی فرق ہوگا ۔کوئی جہنم کے سخت تر ین طبقے میں اور کوئی اس سے کم تر درجے میں ، کچھ لوگوں کو نصف پنڈلیوں تک آگ لگی ہوگی اور کچھ کو ٹخنوں تک ۔ (4)اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ شرک تمام گناہوں سے بڑا گنا ہ ہے ۔اس سے بڑاگنا ہ کوئی نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ شرک کسی صورت معاف نہیں ہوگا ۔ اس کے علاوہ جتنے کبیرہ گناہ ہیں ان کی معافی ممکن ہے ۔مرنے کے بعد شرک کی معافی ہی نہیں ،اس لیے مشرک وکافر ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ جمہور اہل علم نےاسی آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے کہ قاتل کی معافی بھی ممکن ہے ۔دیگر کبیرہ گناہوں کی طرح وہ بھی اللہ تعالی کی مشیت کے تحت ہے ، اگروہ چاہے تو ناحق قتل کرنے والے قاتل کو بھی معاف فرمادے ۔یہی حق ہے جبکہ حضرت عبد اللہ ؓ ایسے قاتل کی معافی کے قائل نہیں ۔کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اس سے رجوع کرلیا تھا لیکن تحقیق کی روشنی میں ان کے رجوع کا اثبات مشکال ہے ۔واللہ اعلم. (6) ’’پہچانیں گے،،گویا آگ ان کے چہر وں کو نہیں لگے گی جیسا کہ آئندہ کلام سے معلوم ہورہا ہے کیونکہ چہرہ تو سجدے کا مقام ہے ۔وہ نمازی ہو ں گے ۔آگ نماز کے مقامات کو نہیں چھوئے گی یا ان میں بگاڑ پیدانہیں کر سکے گی ۔ (7)’’ہم نے نکال لیے ،، مقصد یہ ہے کہ ابھی بہت سے اور مومن بھی آگ میں جل رہے ہیں ۔ ان کو بھی نکالنے کاحکم صادر فرمایا جائے ۔ (8)اما م صاحب کامقصد ایمان میں کمی بیشی ثابت کرنا ہے جوحدیث سے واضح ہے ۔(دینار کے برابر ،نصف دینار کے برابر ذرہ برابر ۔)جو لوگ ایمان میں کمی بیشی کے قائل نہیں ،وہ یہ کمی بیشی اعمال کی طرف منسوب کرتے ہیں، حالانکہ وہ خوایمان کو دل ہی سے خالص سمجھتے ہیں۔اعمال کا اثر تو اعضاء پر ہوگا۔ (9)’’دینار ،،سونے کاایک سکہ تھا جس کا وزن موجودہ دور کے مطابق چار ماشے چار رتی اور گرام کے حساب 4.374گر ام بنتا ہے ۔ 10۔ذرہ سے مراد غبار کا ذرہ ہے۔بعض نے چیونٹی کا معنیٰ بھی کیا ہے۔واللہ اعلم