كِتَابُ الْمَوَاقِيتِ الْإِبْرَادُ بِالظُّهْرِ إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا عَنْ الصَّلَاةِ فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ
کتاب: اوقات نماز سے متعلق احکام و مسائل
گرمی زیادہ ہو تو ظہرکو ٹھنڈا کر کے پڑھنا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب گرمی زیادہ ہو تو نماز کو ٹھنڈی کرو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کا جوش ہے‘‘
تشریح :
(۱)سخت گرمیوں میں ظہر کو مؤخر کرنا ضرورت کی بنا پر ہے یا مستحب؟ اس میں اختلاف ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ اگر لوگوں کو آمدورفت اور نماز کی ادائیگی میں تکلیف نہ ہو، مثلاً : لوگ پہلے سے جمع ہیں اور نماز کی جگہ سایہ دار ہے تو نماز اول وقت میں ادا کرنا ہی افضل ہے۔ اگر نمازیوں کو تکلیف ہو تو نماز لیٹ کی جاسکتی ہے، جب کہ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ شدت گرمی کا وقت جہنم کے ساتھ تشبیہ کی بنا پر مکروہ ہوتا ہے، لہٰذا اس وقت میں نماز مناسب نہیں، تاخیر کرنی چاہیے۔ دیگر دلائل کی روشنی میں پہلے موقف کی تائید ہوتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی کو اظہر قرار دیا ہے۔ چونکہ سردیوں میں اس شدت کا سامنا نہیں ہوتا اور تکلیف بھی محسوس نہیں ہوتی، اس لیے نماز جلدی پڑھنا مستحب ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے علت کو مقدم رکھا ہے۔ (۲)’’جہنم کا جوش‘‘ بہت سے اہل علم نے اسے حقیقت پر محمول کیا ہے کہ گرمی کا تعلق جہنم کے ساتھ ہے۔ جب جہنم کو جوش آتا ہے تو گرمی زیادہ ہوجاتی ہے اور یہ کوئی بعید نہیں۔ اور الفاظ کا ظاہری معنی مراد لینا ہی بہتر ہے۔ دنیا کا سارا نظام ہی غیرمرئی سہاروں پر قائم ہے۔ ممکن ہے کہ سورج کا جہنم سے کوئی تعلق ہو، البتہ بعض حضرات کے بقول اگر اسے تشبیہ پر محمول کیا جائے تو بلاغتِ کلام کا بہترین نمونہ ہوگا، یعنی گرمی کی شدت تکلیف دہ چیز ہے ، جہنم کی لو کی طرح۔ اہل اسلام کے نزدیک سب سے لذیذ چیز جنت ہے اور سب سے تکلیف دہ اور قبیح چیز جہنم ہے، اس لیے مفید، اچھی اور لذیذ چیز کی نسبت جنت کی طرف اور تکلیف اور نقصان دہ اور قبیح چیز کی نسبت جہنم کی طرف کردی جاتی ہے۔ یہی حال فرشتے اور شیطان کی طرف نسبت کا ہے کہ مقصد صرف تشبیہ اور ذہنی توجہ ہوتی ہے نہ کہ ظاہر الفاظ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلیغ ترین انسان تھے۔ آپ کا کلام تشبیہات، استعارات اور کنایات کا اعلیٰ نمونہ ہوتا تھا، لہٰذا کوئی بعید نہیں کہ یہ کلام بھی تشبیہ بلیغ کا نمونہ ہو۔ واللہ اعلم۔ (۳)جنت اور جہنم کا وجود موجود ہے۔
(۱)سخت گرمیوں میں ظہر کو مؤخر کرنا ضرورت کی بنا پر ہے یا مستحب؟ اس میں اختلاف ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ اگر لوگوں کو آمدورفت اور نماز کی ادائیگی میں تکلیف نہ ہو، مثلاً : لوگ پہلے سے جمع ہیں اور نماز کی جگہ سایہ دار ہے تو نماز اول وقت میں ادا کرنا ہی افضل ہے۔ اگر نمازیوں کو تکلیف ہو تو نماز لیٹ کی جاسکتی ہے، جب کہ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ شدت گرمی کا وقت جہنم کے ساتھ تشبیہ کی بنا پر مکروہ ہوتا ہے، لہٰذا اس وقت میں نماز مناسب نہیں، تاخیر کرنی چاہیے۔ دیگر دلائل کی روشنی میں پہلے موقف کی تائید ہوتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی کو اظہر قرار دیا ہے۔ چونکہ سردیوں میں اس شدت کا سامنا نہیں ہوتا اور تکلیف بھی محسوس نہیں ہوتی، اس لیے نماز جلدی پڑھنا مستحب ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے علت کو مقدم رکھا ہے۔ (۲)’’جہنم کا جوش‘‘ بہت سے اہل علم نے اسے حقیقت پر محمول کیا ہے کہ گرمی کا تعلق جہنم کے ساتھ ہے۔ جب جہنم کو جوش آتا ہے تو گرمی زیادہ ہوجاتی ہے اور یہ کوئی بعید نہیں۔ اور الفاظ کا ظاہری معنی مراد لینا ہی بہتر ہے۔ دنیا کا سارا نظام ہی غیرمرئی سہاروں پر قائم ہے۔ ممکن ہے کہ سورج کا جہنم سے کوئی تعلق ہو، البتہ بعض حضرات کے بقول اگر اسے تشبیہ پر محمول کیا جائے تو بلاغتِ کلام کا بہترین نمونہ ہوگا، یعنی گرمی کی شدت تکلیف دہ چیز ہے ، جہنم کی لو کی طرح۔ اہل اسلام کے نزدیک سب سے لذیذ چیز جنت ہے اور سب سے تکلیف دہ اور قبیح چیز جہنم ہے، اس لیے مفید، اچھی اور لذیذ چیز کی نسبت جنت کی طرف اور تکلیف اور نقصان دہ اور قبیح چیز کی نسبت جہنم کی طرف کردی جاتی ہے۔ یہی حال فرشتے اور شیطان کی طرف نسبت کا ہے کہ مقصد صرف تشبیہ اور ذہنی توجہ ہوتی ہے نہ کہ ظاہر الفاظ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلیغ ترین انسان تھے۔ آپ کا کلام تشبیہات، استعارات اور کنایات کا اعلیٰ نمونہ ہوتا تھا، لہٰذا کوئی بعید نہیں کہ یہ کلام بھی تشبیہ بلیغ کا نمونہ ہو۔ واللہ اعلم۔ (۳)جنت اور جہنم کا وجود موجود ہے۔