سنن النسائي - حدیث 5005

كِتَابُ الْإِيمَانِ وَشَرَائِعِهِ الْبَيْعَةُ عَلَى الْإِسْلَامِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسٍ فَقَالَ تُبَايِعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَزْنُوا قَرَأَ عَلَيْهِمْ الْآيَةَ فَمَنْ وَفَّى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَسَتَرَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَهُوَ إِلَى اللَّهِ إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5005

کتاب: ایمان اور اس کے فرائض واحکام کا بیان اسلام (کے کاموں ) پر بعیت کرنا حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے ،انھوں نے فرمایا : ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کے پاس ایک مجلس میں موجو د تھے ۔ آپ نے فرمایا :’’ مجھ سے بیعت کرو کہ اللہ تعالی ٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناؤ گے، چوری نہیں کرو گے ،زنا نہیں کروگے، آپ نے پوری آیت تلاوت فرمائی ۔(پھر فرمایا)’’جو شخص اس عہد کو پورا کر ے گا ، اس کا اجر وثواب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے ۔ اور جس شخص نے ان ( مذکورہ کاموں ) میں سے کسی کام کا ارتکاب کیا ،پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہوگا ۔چاہے اسے عذاب دے ، چاہے معاف کرے ۔،،
تشریح : (1)یہ روایت پیچھے گزر چکی ہے اور ضروری تفصیل بیان ہو چکی ہے ۔بعیت سے مراد عہد ہے ۔ نیکی کے کاموں پر بیعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ وتابعین نے کسی ہاتھ پر بھی نہیں کی حتیٰ کہ خلفائے راشدین کے ہاتھ پر بھی نہیں کی ،لہذا اس بعیت کی اب ضرورت نہیں ۔ اگر چہ عقلی وشرعی طور پر اس میں کو ئی قباحت معلوم نہیں ہوتی مگر صحابہ وتابعین کا اسے مطلقا چھوڑ دینا بھی تو مظبوط دلیل ہے ۔ (2)’’پوری آیت پڑھی،، اس آیت سے سورہ ممتحنہ کی آیت مراد ہے جو عورتوں کی بیعت کے بارے میں اتر ی تھی ۔شاید آپنے مؤنث کے صغیے مذکر سے بدل لیے ہوں گے کیو نکہ آپ قرآن تو نہیں پڑھ رہے تھے، عہد لے رہے تھے ،لہذا الفاظ میں تبدیلی پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا ۔ (1)یہ روایت پیچھے گزر چکی ہے اور ضروری تفصیل بیان ہو چکی ہے ۔بعیت سے مراد عہد ہے ۔ نیکی کے کاموں پر بیعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ وتابعین نے کسی ہاتھ پر بھی نہیں کی حتیٰ کہ خلفائے راشدین کے ہاتھ پر بھی نہیں کی ،لہذا اس بعیت کی اب ضرورت نہیں ۔ اگر چہ عقلی وشرعی طور پر اس میں کو ئی قباحت معلوم نہیں ہوتی مگر صحابہ وتابعین کا اسے مطلقا چھوڑ دینا بھی تو مظبوط دلیل ہے ۔ (2)’’پوری آیت پڑھی،، اس آیت سے سورہ ممتحنہ کی آیت مراد ہے جو عورتوں کی بیعت کے بارے میں اتر ی تھی ۔شاید آپنے مؤنث کے صغیے مذکر سے بدل لیے ہوں گے کیو نکہ آپ قرآن تو نہیں پڑھ رہے تھے، عہد لے رہے تھے ،لہذا الفاظ میں تبدیلی پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا ۔