سنن النسائي - حدیث 5003

كِتَابُ الْإِيمَانِ وَشَرَائِعِهِ أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَبِي الْخَيْرِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ قَالَ تُطْعِمُ الطَّعَامَ وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 5003

کتاب: ایمان اور اس کے فرائض واحکام کا بیان کون سا اسلام بہتر ہے ؟ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کون سا اسلام بہتر ہے ؟آپ نے فرمایا :’’تو کھانا کھلائے اور ہر ایک کو سلام کہے ،خواہ پہچا نتا ہو یا نہ پہچانتا ہو ۔،،
تشریح : (1)’’کون سا اسلام بہتر ہے ،، یعنی امور اسلام میں سے کو ن سا کام زیا دہ بہتر اور افضل ہے ۔ (2) اس میں جہاں بھوکوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے وہاں محتاج اور ضرورت مند لوگوں کی دلجوئی کی طرف بھی رہنمائی کی گئی ہے ۔ کھانا کھلانے اور دل جوئی کرنا لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے کا ایک تیر بہدف نسخہ ہے ۔دیث دار لوگوں ،با لخصوص علماء کو اس اہم نکتے کی طرف بھر پور توجہ دینی چاہیے۔ (3)اس حدیث مبارکہ سے اسلام کی اہمیت واضح ہو تی ہے ۔ لوگوں کے دل موہنے اور انھیں اپنے قریب کرنے کے لیے یہ بہت مفید اور مجرب چیز ہے ۔سلام کرنے کےلیے چند لوگوں کو خاص نہ کیا جائے جیساکہ متکبر اور جابر قسم کے لوگوں کا طریقہ ہے بلکہ ہر خاص وعام کو سلام کیا جائے کیونکہ تمام اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ، تاہم کسی کافر مشرک اور یہودی وعیسائی کو سلام کرنے میں پہل نہ کی جائے اور نہ کسی فاسق وفاجر کو پہلے سلام کیا جائے ،البتہ جس شخص کی اصل حقیقت حال معلوم نہ ہو تواسے مسلمان سمجھتے ہوئے سلام کہنے میں پہل کی جاسکتی ہے ۔واللہ اعلم . (4)افضل عمل کےمتعلق مختلف روایا ت آئی ہیں۔ یہ اختلاف اشخاص واحوال کے لحاظ سے ہے ، لہذا اسے تضاد نہیں کیا جائے گا۔(تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث:4989) (1)’’کون سا اسلام بہتر ہے ،، یعنی امور اسلام میں سے کو ن سا کام زیا دہ بہتر اور افضل ہے ۔ (2) اس میں جہاں بھوکوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے وہاں محتاج اور ضرورت مند لوگوں کی دلجوئی کی طرف بھی رہنمائی کی گئی ہے ۔ کھانا کھلانے اور دل جوئی کرنا لوگوں کو اپنا گرویدہ بنانے کا ایک تیر بہدف نسخہ ہے ۔دیث دار لوگوں ،با لخصوص علماء کو اس اہم نکتے کی طرف بھر پور توجہ دینی چاہیے۔ (3)اس حدیث مبارکہ سے اسلام کی اہمیت واضح ہو تی ہے ۔ لوگوں کے دل موہنے اور انھیں اپنے قریب کرنے کے لیے یہ بہت مفید اور مجرب چیز ہے ۔سلام کرنے کےلیے چند لوگوں کو خاص نہ کیا جائے جیساکہ متکبر اور جابر قسم کے لوگوں کا طریقہ ہے بلکہ ہر خاص وعام کو سلام کیا جائے کیونکہ تمام اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ، تاہم کسی کافر مشرک اور یہودی وعیسائی کو سلام کرنے میں پہل نہ کی جائے اور نہ کسی فاسق وفاجر کو پہلے سلام کیا جائے ،البتہ جس شخص کی اصل حقیقت حال معلوم نہ ہو تواسے مسلمان سمجھتے ہوئے سلام کہنے میں پہل کی جاسکتی ہے ۔واللہ اعلم . (4)افضل عمل کےمتعلق مختلف روایا ت آئی ہیں۔ یہ اختلاف اشخاص واحوال کے لحاظ سے ہے ، لہذا اسے تضاد نہیں کیا جائے گا۔(تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث:4989)