سنن النسائي - حدیث 4998

كِتَابُ الْإِيمَانِ وَشَرَائِعِهِ صِفَةُ الْمُؤْمِنِ حسن أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4998

کتاب: ایمان اور اس کے فرائض واحکام کا بیان مومن کی صفت کا بیان حضرت ابو ہریرہ ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اصل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں ۔ اور اصل مومن وہ ہے جس سے لوگوں کو اپنی جان ومال کے بارے میں کوئی خطرہ نہ ہو،،
تشریح : (1)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ مسلمانوں کے مختلف درجے ہیں ۔ ان میں سے کچھ تو درجہ کمال کو پہنچے ہوئے ہیں اور کچھ اس کمال تک نہیں پہنچ پائے بلکہ اس سے کسی قدر نیچے ہیں ۔ (2)جانی اور مالی حقوق میں اصل حرمت ہے ، یعنی انھیں بغیر کسی شرعی وجہ کے پامال نہیں کیا جاسکتا، تاہم جب جان ومال کے ذریعے سے شرعی تقاضے مجروح کیے جائیں یا انسان اس کا سبب بن رہا ہو تو پھر اس کی حرمت بھی جاتی رہتی ہے ،مثلا :اگر کوئی شخص کسی کا ہاتھ کاٹ دے تو قصاص میں ہاتھ کاٹنے والے کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا یا پھر اسے پچاس اونٹ دیت لی جائے گی ۔ اس کے بر عکس اگر کوئی شخص ایک ڈھال چرا لے یاتین درہم چرائے تو چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اور وہ بھی دایا ں ہاتھ ۔اب ایک ہاتھ کی قیمت توپچاس اونٹ لگی ہے جبکہ دوسرا صرف تین درہم میں کٹ گیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ پہلا ہاتھ جس کی قیمت پچاس اونٹ لگی ہے وہ معصوم تھا جبکہ دوسرا گناہ گارتھا ۔اس نے شرعی تقاضے مجروح کیے ، اس کی حرمت خود بخود پامال ہو گئ ۔وعلیٰ ھذالقیاس . (3) یہاں مسلمان اور مومن سے کامل مسلمان اور کامل مومن مراد ہے ورنہ جس شخص میں یہ اوصاف نہ پائے جائیں ، اسے بھی مسلمان اور مومن کہا جائے گا ۔دراصل آپ نے لفظی معانی کی طرف تو جہ دلائی ہے ۔ اسلام سلامتی سے اور ایمان امن سے ہے ،لہذا ہر مسلمان اور مومن کو سلامتی اور امن کا پیکر ہونا چاہیئے ۔ (1)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ مسلمانوں کے مختلف درجے ہیں ۔ ان میں سے کچھ تو درجہ کمال کو پہنچے ہوئے ہیں اور کچھ اس کمال تک نہیں پہنچ پائے بلکہ اس سے کسی قدر نیچے ہیں ۔ (2)جانی اور مالی حقوق میں اصل حرمت ہے ، یعنی انھیں بغیر کسی شرعی وجہ کے پامال نہیں کیا جاسکتا، تاہم جب جان ومال کے ذریعے سے شرعی تقاضے مجروح کیے جائیں یا انسان اس کا سبب بن رہا ہو تو پھر اس کی حرمت بھی جاتی رہتی ہے ،مثلا :اگر کوئی شخص کسی کا ہاتھ کاٹ دے تو قصاص میں ہاتھ کاٹنے والے کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا یا پھر اسے پچاس اونٹ دیت لی جائے گی ۔ اس کے بر عکس اگر کوئی شخص ایک ڈھال چرا لے یاتین درہم چرائے تو چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اور وہ بھی دایا ں ہاتھ ۔اب ایک ہاتھ کی قیمت توپچاس اونٹ لگی ہے جبکہ دوسرا صرف تین درہم میں کٹ گیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ پہلا ہاتھ جس کی قیمت پچاس اونٹ لگی ہے وہ معصوم تھا جبکہ دوسرا گناہ گارتھا ۔اس نے شرعی تقاضے مجروح کیے ، اس کی حرمت خود بخود پامال ہو گئ ۔وعلیٰ ھذالقیاس . (3) یہاں مسلمان اور مومن سے کامل مسلمان اور کامل مومن مراد ہے ورنہ جس شخص میں یہ اوصاف نہ پائے جائیں ، اسے بھی مسلمان اور مومن کہا جائے گا ۔دراصل آپ نے لفظی معانی کی طرف تو جہ دلائی ہے ۔ اسلام سلامتی سے اور ایمان امن سے ہے ،لہذا ہر مسلمان اور مومن کو سلامتی اور امن کا پیکر ہونا چاہیئے ۔