سنن النسائي - حدیث 4993

كِتَابُ الْإِيمَانِ وَشَرَائِعِهِ بَاب نَعْتِ الْإِسْلَامِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ قَالَ أَنْبَأَنَا كَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّى جَلَسَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنْ الْإِسْلَامِ قَالَ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنْ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا قَالَ صَدَقْتَ فَعَجِبْنَا إِلَيْهِ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ ثُمَّ قَالَ أَخْبِرْنِي عَنْ الْإِيمَانِ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدَرِ كُلِّهِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ قَالَ صَدَقْتَ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ الْإِحْسَانِ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ السَّاعَةِ قَالَ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ بِهَا مِنْ السَّائِلِ قَالَ فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا قَالَ أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ قَالَ عُمَرُ فَلَبِثْتُ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عُمَرُ هَلْ تَدْرِي مَنْ السَّائِلُ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام أَتَاكُمْ لِيُعَلِّمَكُمْ أَمْرَ دِينِكُمْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4993

کتاب: ایمان اور اس کے فرائض واحکام کا بیان اسلام کابیان حضرت عمر بن خطاب ؓنے فرمایا :ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھے کہ ایک آدمی ہمیں اچانک نظر پڑا ۔ اس کے کپڑے انتہائی سفید تھے اور سر کے بال انتہائی سیاہ ۔ نہ تو اس پر سفر کے نشانات نظر آتے تھے اور نہ اسے کوئی پہچانتا تھا حتی ٰ کہوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکربیٹھ گیا اور اس نے اپنے گھٹنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھٹنوں کے ساتھ لگادیے ۔ اور اپنی ہتھیلیاں آپ کی رانوں پررکھ لیں پھر کہا : اے محمد ! مجھے اسلام کے بارےمیں بتلائیں ؟ آپنےفرمایا : ’’یہ کہ تو گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ۔ اور تونماز کی پابندی کرے ،زکاۃ ادا کرے ، رمضان المبارک کے روزے رکھے اور اگر تو طاقت رکھے تو بیت اللہ کا حج کرے ۔،، اس نے کہا : آپ سچ فرماتے ہیں۔ اس پر حیرانی ہوئی کہ یہ آپ سے پوچھتا بھی ہے اور تصدیث بھی کرتا ہے ۔ پھر اس نے کہا:آپ مجھے ایمان کے بارےمیں بتلائیں ؟ آپ نے فرمایا:’’یہ کہ تو اللہ تعالیٰ پر ، اس کے فرشتوں ،اس کی کتابوں ،اس کے رسولوں ،یوم آخرت اور ہر اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھے ۔ ،، اس نے کہا : آپ سچ فرماتے ہیں۔ مجھے احسان کے بارےمیں بتلائیں ؟ آپ نے فرمایا:’’ یہ کہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے گوتواسے دیکھ رہا ہے ،پھر اگر تو اسے نہیں دیکھتا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے ۔ ،، اس نے کہا : مجھے قیامت کے بارے میں خبر دیجیے ؟ آپ نے فرمایا :’’جس سے پوچھا گیا ہے ،وہ پوچھنے والے سے قیامت کا زیادہ علم نہیں رکھتا ۔،، اس نے کہا : پھرمجھے اس کی نشانیاں بتلا دیجیے ؟ آپ نےفرمایا :’’ (ایک نشانی یہ ہے ) کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اور (دوسری )یہ کہ تو ننگے پاؤں پھر نے والے ، ننگے جسم رہنے والے ، بکر یوں کے کنگال چرواہوں کو دیکھے گا کہ وہ ایک دوسرے کے مقابلے میں فخریہ انداز میں اونچی عمارتیں بنانے لگے ہیں ۔،، (پھر وہ چلا گیا ) حضرت عمر ؓ نے فرمایا : تین دن میں اسی طرح (ششدر) ٹھہرا رہا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا : ’’عمر !جانتے ہو وہ سائل کو ن تھا ؟ ،، میں نے کہا : اللہ اوراس کارسول ہی خوب جانتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : ’’جبریل علیہ السلام تھے ۔ تمھیں تمھارے دینی معاملات سکھانے آئے تھے۔،،
تشریح : 1۔اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ ثابت ہوتاہے کہ فرشتہ ،انبیاء علیہم السلام کے علاوہ دوسرے لوگوں کے سامنے بھی انسانی شکل وصورت میں آسکتا ہے ، لوگ اسے دیکھ سکتے ہیں ، وہ ان کی موجودگی میں باتیں کر سکتا ہے اور وہ اس کی باتیں سن بھی سکتے ہیں ۔ (2) یہ شرعا پسندیدہ عمل ہے کہ بن سنور کر ،نہا دھو کر اور صاف ستھرے لباس میں ملبوس ہوکر علماء اورملوک وسلاطین کی مجالس میں جایا جائے ۔ جبریل امین علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں لوگوں کو ان کا دین سکھلانے او ر تعلیم دینے کے لیے ہی آئے تھے اور وہ تعلیم انھوں نےاپنے حال ومقال کے ساتھ دی ہے ۔ وہ بہترین اور صاف ستھرے لباس میں ملبوس تھے ۔ ان پر تھکاوٹ اور میل کچیل کے کوئی نشان نہیں تھے ۔ (3) اہل علم کی مجلس میں حاضر ہونے والے شخص کے لیے یہ بھی مناسب ہے کہ لوگوں کو کسی مسئلے کی ضرورت ہے اور پوچھ نہیں رہے تو وہ خود پوچھتے تاکہ سب لوگوں کو مسئلے کا علم ہو جائے اور اس طرح ان کی دینی ضرورت پوری ہو ۔ (4) ’’اچانک نظر پڑا ،، یعنی دور سے آتا نظر نہیں آتا ۔ قریب ہی دیکھا ۔ پھر بالوں اور کپڑوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ ابھی گھر سےنہا دھو کر نکلا ہےمگر اسے پہچا نتا کو ئی بھی نہیں تھا۔ گویا وہ مسافر تھا۔ (5) ’’ اپنے گھٹنے ،، بے تکلفی کے انداز میں یا شاگردوں کی طرح دو زانو ہو کر بیٹھا ۔ (6)’’آپ کی رانو ں پر ،، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رانوں پر جیسا کہ اگلی روایت میں اس کی تصریح ہے ۔ اس صورت میں گویا اس نے اپنے آپ کواجڈ بدوی ظاہر کیا کیونکہ یہ انداز ادب کے خلاف ہے ۔ (7)اس حدیث میں اسلام اورایمان کی تعریف مختلف کی گئی ہے ۔ گویا لغوی مناسب کا لحاظ فرمایا - اسلام ظاہری کو کہا گیاہے اورا ایما قلبی تصدیق کو۔ ظاہر ہے لغۃ تو ان میں کچھ فرق ہے ، البتہ شرعا کوئی فرق نہیں۔ (7)’’حیرانی ہوئی ،، کیونکہ پوچھنا دلیل ہے کہ وہ ناو اقف ہے مگر تصدیق کرنا اسے عالم ظاہر کرتا ہے ۔ دراصل اس نےاپنے ہر کام میں ابہام رکھا جس سے حیرانی رہی۔ (9)’’وہ تجھے دیکھ رہا ہے ،، یعنی تیرے اس کو دیکھنے کا بھی یہی مقصود کہ وہ تجھے دیکھتا ہے کیو نکہ جب انسان کو یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے تو وہ انتہائی خشوع وحضوع سے عبادت کرے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ بندے کو نہ دیکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے تصورسے اتنا خشوع پیدا نہیں ہوگا ۔ بعض لوگوں نے یہ مطلب بیان کیاہے کہ احسان کے دو مطلب ہیں : پہلا اور اعلی ٰ تویہ ہے کہ تو عبادت میں یوں سمجھے کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں ۔اگر یہ درجہ حاصل نہ ہو سک تودوسرے او ر ادنی ٰ درجہ یہ ہے کہ تو یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے ۔واللہ اعلم . (10) ان الفاظ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی شخص دنیوی زندگی میں اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا ورنہ ’’گویا کہ ،، کہنےکی ضرورت نہیں تھی ۔ (11) ’’زیادہ علم نہیں رکھتا ،، یعنی میں تجھ سے قیامت کا زیا علم نہیں رکھتا یا کوئی مسئول کسی سائل سے قیامت کا علم زیادہ نہیں رکھتا ۔ مطلب یہ کہ نزول قیامت کے وقت کو کوئی نہیں جانتا ۔ (12) ’’لونڈ ی مالک کو جنے ،، بہت سے مطلب بیان کیے گئے ہیں ۔ زیادہ مناسب مطلب یہ ہے کہ اولاد نافرمان ہو جائےگی اورماؤں سے لونڈیوں جیسا سلوک کیا جائے گا ۔ گویا وہ اولاد نہیں، مالک ہیں ۔واللہ اعلم. (13) ’’اونچی اونچی عمارتیں ،، یعنی غریب لوگ بہت امیر ہو جائیں گے ۔ مال عام ہو جائےگا ۔تنگ ظرفی کی وجہ سے مال سنبھال نہ سکیں گے۔ عمارتیں بنانے میں ضائع کر دیں گے ۔ (14) ’’ششدر رہا ،، کیو نکہ جس طرح وہ اچانک آیا تھا، اسی طرح اچانک غائب ہو گیا۔ لوگوں نےبہت تلاش کیا مگر وہ ملا ۔ (15) اس حدیث کو ’’جدیث جبریل ،،کہتے ہیں ۔ 1۔اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ ثابت ہوتاہے کہ فرشتہ ،انبیاء علیہم السلام کے علاوہ دوسرے لوگوں کے سامنے بھی انسانی شکل وصورت میں آسکتا ہے ، لوگ اسے دیکھ سکتے ہیں ، وہ ان کی موجودگی میں باتیں کر سکتا ہے اور وہ اس کی باتیں سن بھی سکتے ہیں ۔ (2) یہ شرعا پسندیدہ عمل ہے کہ بن سنور کر ،نہا دھو کر اور صاف ستھرے لباس میں ملبوس ہوکر علماء اورملوک وسلاطین کی مجالس میں جایا جائے ۔ جبریل امین علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں لوگوں کو ان کا دین سکھلانے او ر تعلیم دینے کے لیے ہی آئے تھے اور وہ تعلیم انھوں نےاپنے حال ومقال کے ساتھ دی ہے ۔ وہ بہترین اور صاف ستھرے لباس میں ملبوس تھے ۔ ان پر تھکاوٹ اور میل کچیل کے کوئی نشان نہیں تھے ۔ (3) اہل علم کی مجلس میں حاضر ہونے والے شخص کے لیے یہ بھی مناسب ہے کہ لوگوں کو کسی مسئلے کی ضرورت ہے اور پوچھ نہیں رہے تو وہ خود پوچھتے تاکہ سب لوگوں کو مسئلے کا علم ہو جائے اور اس طرح ان کی دینی ضرورت پوری ہو ۔ (4) ’’اچانک نظر پڑا ،، یعنی دور سے آتا نظر نہیں آتا ۔ قریب ہی دیکھا ۔ پھر بالوں اور کپڑوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ ابھی گھر سےنہا دھو کر نکلا ہےمگر اسے پہچا نتا کو ئی بھی نہیں تھا۔ گویا وہ مسافر تھا۔ (5) ’’ اپنے گھٹنے ،، بے تکلفی کے انداز میں یا شاگردوں کی طرح دو زانو ہو کر بیٹھا ۔ (6)’’آپ کی رانو ں پر ،، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رانوں پر جیسا کہ اگلی روایت میں اس کی تصریح ہے ۔ اس صورت میں گویا اس نے اپنے آپ کواجڈ بدوی ظاہر کیا کیونکہ یہ انداز ادب کے خلاف ہے ۔ (7)اس حدیث میں اسلام اورایمان کی تعریف مختلف کی گئی ہے ۔ گویا لغوی مناسب کا لحاظ فرمایا - اسلام ظاہری کو کہا گیاہے اورا ایما قلبی تصدیق کو۔ ظاہر ہے لغۃ تو ان میں کچھ فرق ہے ، البتہ شرعا کوئی فرق نہیں۔ (7)’’حیرانی ہوئی ،، کیونکہ پوچھنا دلیل ہے کہ وہ ناو اقف ہے مگر تصدیق کرنا اسے عالم ظاہر کرتا ہے ۔ دراصل اس نےاپنے ہر کام میں ابہام رکھا جس سے حیرانی رہی۔ (9)’’وہ تجھے دیکھ رہا ہے ،، یعنی تیرے اس کو دیکھنے کا بھی یہی مقصود کہ وہ تجھے دیکھتا ہے کیو نکہ جب انسان کو یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے تو وہ انتہائی خشوع وحضوع سے عبادت کرے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ بندے کو نہ دیکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے تصورسے اتنا خشوع پیدا نہیں ہوگا ۔ بعض لوگوں نے یہ مطلب بیان کیاہے کہ احسان کے دو مطلب ہیں : پہلا اور اعلی ٰ تویہ ہے کہ تو عبادت میں یوں سمجھے کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں ۔اگر یہ درجہ حاصل نہ ہو سک تودوسرے او ر ادنی ٰ درجہ یہ ہے کہ تو یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے ۔واللہ اعلم . (10) ان الفاظ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی شخص دنیوی زندگی میں اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا ورنہ ’’گویا کہ ،، کہنےکی ضرورت نہیں تھی ۔ (11) ’’زیادہ علم نہیں رکھتا ،، یعنی میں تجھ سے قیامت کا زیا علم نہیں رکھتا یا کوئی مسئول کسی سائل سے قیامت کا علم زیادہ نہیں رکھتا ۔ مطلب یہ کہ نزول قیامت کے وقت کو کوئی نہیں جانتا ۔ (12) ’’لونڈ ی مالک کو جنے ،، بہت سے مطلب بیان کیے گئے ہیں ۔ زیادہ مناسب مطلب یہ ہے کہ اولاد نافرمان ہو جائےگی اورماؤں سے لونڈیوں جیسا سلوک کیا جائے گا ۔ گویا وہ اولاد نہیں، مالک ہیں ۔واللہ اعلم. (13) ’’اونچی اونچی عمارتیں ،، یعنی غریب لوگ بہت امیر ہو جائیں گے ۔ مال عام ہو جائےگا ۔تنگ ظرفی کی وجہ سے مال سنبھال نہ سکیں گے۔ عمارتیں بنانے میں ضائع کر دیں گے ۔ (14) ’’ششدر رہا ،، کیو نکہ جس طرح وہ اچانک آیا تھا، اسی طرح اچانک غائب ہو گیا۔ لوگوں نےبہت تلاش کیا مگر وہ ملا ۔ (15) اس حدیث کو ’’جدیث جبریل ،،کہتے ہیں ۔