سنن النسائي - حدیث 4984

كِتَابُ قَطْعِ السَّارِقِ حَدُّ الْبُلُوغِ وَذِكْرُ السِّنِّ الَّذِي إِذَا بَلَغَهَا الرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ أُقِيمَ عَلَيْهِمَا الْحَدُّ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَطِيَّةَ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ قَالَ كُنْتُ فِي سَبْيِ قُرَيْظَةَ وَكَانَ يُنْظَرُ فَمَنْ خَرَجَ شِعْرَتُهُ قُتِلَ وَمَنْ لَمْ تَخْرُجْ اسْتُحْيِيَ وَلَمْ يُقْتَلْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4984

کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے کا بیان بلوغت کی حد ،نیز اس کابیان کہ کس عمر تک پہنچنے کی صورت میں مرد اور عورت پر حد لگائی جائے گی؟ حضرت عطیہ ؓ سے روایت ہے ،انھوں نے کہا کہ میں بنو قریظہ کے قید یوں میں شامل تھا ۔ (فیصلے کے مطابق )دیکھا جاتا تھا کہ جس قیدی کے زیر ناف بال اگے ہوتےتھے ،اس قتل کردیا جاتا تھا اور جسکے زیر ناف بال نہیں اگے ہوتے تھے ،اسے زندہ چھوڑ دیا جاتا تھا اور قتل نہیں کیا جاتا تھا۔
تشریح : (1)مقصد یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکی کس عمر میں بالغ ہوتے ہیں .؟اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ شرعی حدیث اور سزائں کسی مجرم پر اس وقت نافذ ہوتی ہیں جب انسان بالغ ہو جائے ۔جب تک کوئی شخص بالغ نہیں ہو جاتا اس وقت تک اس پر حد نہیں لگ سکتی ۔باقی رہا یہ مسئلہ کہ اگر کوئی نابالغ بچہ ایسا جرم کر بیٹھے جس پر شرعی حد لاگو ہوتی ہو تواس وقت کیا جائے ؟ مسئلہ بالکل یہی ہے کہ نابالغ بچے پر شرعی حدنہیں لگ سکتی ،تاہم قابل حد جرم سرزد ہونےکی صورت میں قاضی اور جج یا حاکم وقت ،ادب سکھانے کی خاطر اسے کوئی مناسب سزادے سکتا ہے ۔واللہ اعلم. (2)شریعت مطہرہ نے کچھ علامات بتائی ہیں جب ان میں سے کوئی ایک علامت کسی لڑکے یا لڑکی میں پائی جائے تو وہ بالغ ہوتاہے ۔ مردوں کے لیے تین علامتیں ہیں، وہ تینوں ہوں یا ان میں سے کوئی ایک ہوتو مرد بالغ سمجھا جائے گا : احتلام ہو نا ، زیرناف سخت با ل اگنا یاعمر پندرہ سال ہونا ۔ البتہ عورت کے لیے مذکورہ تین علامتوں کے علاوہ ،جو کہ مرد اور عورت دونوں میں مشتر ک ہیں ، دواور بھی ہیں جو صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور وہ ہیں :حیض آنا کسی عور ت کاحاملہ ہونا۔ (3)’’بنو قریظہ کے قیدی ،، بنو قریظہ مدینہ میں رہنےوالے یہو دیوں کا ایک قبیلہ تھا جنہوں نے جنگ خندق میں مسلمانوں سے بغاوت کرکے حملہ کرنے والے دشمن کا ساتھ دیا ،لہذا جنگ خندق ختم ہونے کے بعد انھوں نے اپنا فیصلہ اپنے حلیف قبیلے کے سردار حضرت سعد بن معاذؓکے سپرد کر دیا ۔ انھوں نے فیصلہ دیا کہ ان کے بالغ مرد قتل کردیے جائیں اور عورتیں بچے قید کرلیے جائیں ،لہذا ان کےفیصلے کے مطابق عمل ہو ا ۔ (4) میاں بیوی کےسوا کسی کے لیے یہ جائز اور حلا ل نہیں کہ وہ کسی کی شرم گاھ دیکھے ، تاہم حقیقی شرعی عذر اس اصول سے مستثنیٰ ہے ، مثلا : کسی کی جان بچانے کا مسئلہ در پیش ہو اور آپریشن ناگزیر ہوتو معالج مریض کو ضرورت کے مطابق ،بے لباس کرسکتاہے ۔ اور پھر ضرورت حتم ہوتے ہی شرم گا ہ کو ڈھانپنا ضروری ہے ۔ (5)’’جس قیدی ،،یعنی نوعمر قیدی جس کی بلوعت میں شک ہوتا تھا ورنہ بڑی عمر کے آدمی کے بال دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ (6)’’زندہ چھوڑ دیا جاتا،، یعنی اسے قیدی (غلام )بنالیا جاتا تھا۔ یہ عطیہ بھی ان میں شامل تھے اور بعد میں مسلمان ہو گئے ۔ؓ۔ (1)مقصد یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکی کس عمر میں بالغ ہوتے ہیں .؟اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ شرعی حدیث اور سزائں کسی مجرم پر اس وقت نافذ ہوتی ہیں جب انسان بالغ ہو جائے ۔جب تک کوئی شخص بالغ نہیں ہو جاتا اس وقت تک اس پر حد نہیں لگ سکتی ۔باقی رہا یہ مسئلہ کہ اگر کوئی نابالغ بچہ ایسا جرم کر بیٹھے جس پر شرعی حد لاگو ہوتی ہو تواس وقت کیا جائے ؟ مسئلہ بالکل یہی ہے کہ نابالغ بچے پر شرعی حدنہیں لگ سکتی ،تاہم قابل حد جرم سرزد ہونےکی صورت میں قاضی اور جج یا حاکم وقت ،ادب سکھانے کی خاطر اسے کوئی مناسب سزادے سکتا ہے ۔واللہ اعلم. (2)شریعت مطہرہ نے کچھ علامات بتائی ہیں جب ان میں سے کوئی ایک علامت کسی لڑکے یا لڑکی میں پائی جائے تو وہ بالغ ہوتاہے ۔ مردوں کے لیے تین علامتیں ہیں، وہ تینوں ہوں یا ان میں سے کوئی ایک ہوتو مرد بالغ سمجھا جائے گا : احتلام ہو نا ، زیرناف سخت با ل اگنا یاعمر پندرہ سال ہونا ۔ البتہ عورت کے لیے مذکورہ تین علامتوں کے علاوہ ،جو کہ مرد اور عورت دونوں میں مشتر ک ہیں ، دواور بھی ہیں جو صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور وہ ہیں :حیض آنا کسی عور ت کاحاملہ ہونا۔ (3)’’بنو قریظہ کے قیدی ،، بنو قریظہ مدینہ میں رہنےوالے یہو دیوں کا ایک قبیلہ تھا جنہوں نے جنگ خندق میں مسلمانوں سے بغاوت کرکے حملہ کرنے والے دشمن کا ساتھ دیا ،لہذا جنگ خندق ختم ہونے کے بعد انھوں نے اپنا فیصلہ اپنے حلیف قبیلے کے سردار حضرت سعد بن معاذؓکے سپرد کر دیا ۔ انھوں نے فیصلہ دیا کہ ان کے بالغ مرد قتل کردیے جائیں اور عورتیں بچے قید کرلیے جائیں ،لہذا ان کےفیصلے کے مطابق عمل ہو ا ۔ (4) میاں بیوی کےسوا کسی کے لیے یہ جائز اور حلا ل نہیں کہ وہ کسی کی شرم گاھ دیکھے ، تاہم حقیقی شرعی عذر اس اصول سے مستثنیٰ ہے ، مثلا : کسی کی جان بچانے کا مسئلہ در پیش ہو اور آپریشن ناگزیر ہوتو معالج مریض کو ضرورت کے مطابق ،بے لباس کرسکتاہے ۔ اور پھر ضرورت حتم ہوتے ہی شرم گا ہ کو ڈھانپنا ضروری ہے ۔ (5)’’جس قیدی ،،یعنی نوعمر قیدی جس کی بلوعت میں شک ہوتا تھا ورنہ بڑی عمر کے آدمی کے بال دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ (6)’’زندہ چھوڑ دیا جاتا،، یعنی اسے قیدی (غلام )بنالیا جاتا تھا۔ یہ عطیہ بھی ان میں شامل تھے اور بعد میں مسلمان ہو گئے ۔ؓ۔