سنن النسائي - حدیث 4983

كِتَابُ قَطْعِ السَّارِقِ الْقَطْعُ فِي السَّفَرِ ضعيف أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُدْرِكٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عُمَرَ وَهُوَ ابْنُ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا سَرَقَ الْعَبْدُ فَبِعْهُ وَلَوْ بِنَشٍّ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ عُمَرُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4983

کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے کا بیان سفر کے دوران (چور کا ) ہاتھ کاٹنا حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ جب کوئی غلام چوری کر لے تو اسے بیچ دو اگر چہ نصف قیمت پر بکے ۔،، ابو عبدالرحمٰن (امام نسائی)رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ (حدیث کا روای ) عمر بن ابو سلمہ حدیث میں قوی نہیں ۔
تشریح : (1)’’چوری کرلے،، یعنی مالک کی چوری کرے چونکہ کسی دوسرے کی چوری کرےگا تواس کا ہاتھ کاٹا جائے گا ۔مالک کی چوری میں ہاتھ کاٹنا جائز نہیں کیو نکہ وہ بھی گھر میں رہتا ہے ۔ گویا کہ وہ گھر کا ایک فرد ہے او رگھر کے افراد پر گھر سے چوری کی بنا پرحد نہیں لگائی جاتی۔ اس حدیث کی باب سےمناسبت بھی یہی ہے کہ جس طرح گھر کےفرد یاغلام پر چوری کی بنا پر حد نافذ نہیں ہوتی ،اسی طرح سرحدی علاقے کے سفر کے دوران میں بھی چوری کی حد نہیں لگائی جائے گی، یعنی یہ بھی اس کی ایک نظیر ہے اگرچہ فرق بھی ہے کہ سفر سے واپسی پرتو حد لگائی جائے گی مگر غلام پر گھر کی چوری میں بالکل حد نہیں لگائی جائے گی ۔البتہ اسے کوئی اور سزا دی جائے گی ،مثلا :کوڑے لگائے جائیں یا قید وغیرہ کیا جائے ۔ (2)’’بیچ دو،، کیونکہ اس کوچوری کی عادت پڑ گئی ہے ،لہذا اس کا گھر میں رہنا اب ٹھیک نہیں ۔ یہ مسئلہ بار بار پیدا ہو گا ۔ بیج دینا ہی بہتر ہے ۔ممکن ہے دوسرے گھر کے حالات اس کی یہ عادت چھڑا دی لیکن بیچتے وقت اس کایہ عیب خریدنے والے کو صاف بتایا جائے تاکہ وہ دھوکے میں نہ رہے ورنہ گناہ ہو گا ، نیز سودا واپس بھی ہو سکتا ہے ۔ (3)’’نصف قیمت ،، عربی میں لفظ ’’نش،، استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی نصف اوقیہ ہوتے ہیں اور مطلق نصف بھی۔ نصف اوقیہ تو بیس درہم کا ہوتاہے۔مطلق نصف سے مراد نصف درہم بھی ہو سکتا ہے اور نصف قیمت بھی ۔ تینون معانی ممکن ہیں۔ واللہ اعلم . (4) بیچنے کا حکم ضروری نہیں بلکہ بہتر ہے کیو نکہ کسی کوا س کا غلام بیچنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ اس کی اپنی مرضی پر موقوف ہے ۔ (1)’’چوری کرلے،، یعنی مالک کی چوری کرے چونکہ کسی دوسرے کی چوری کرےگا تواس کا ہاتھ کاٹا جائے گا ۔مالک کی چوری میں ہاتھ کاٹنا جائز نہیں کیو نکہ وہ بھی گھر میں رہتا ہے ۔ گویا کہ وہ گھر کا ایک فرد ہے او رگھر کے افراد پر گھر سے چوری کی بنا پرحد نہیں لگائی جاتی۔ اس حدیث کی باب سےمناسبت بھی یہی ہے کہ جس طرح گھر کےفرد یاغلام پر چوری کی بنا پر حد نافذ نہیں ہوتی ،اسی طرح سرحدی علاقے کے سفر کے دوران میں بھی چوری کی حد نہیں لگائی جائے گی، یعنی یہ بھی اس کی ایک نظیر ہے اگرچہ فرق بھی ہے کہ سفر سے واپسی پرتو حد لگائی جائے گی مگر غلام پر گھر کی چوری میں بالکل حد نہیں لگائی جائے گی ۔البتہ اسے کوئی اور سزا دی جائے گی ،مثلا :کوڑے لگائے جائیں یا قید وغیرہ کیا جائے ۔ (2)’’بیچ دو،، کیونکہ اس کوچوری کی عادت پڑ گئی ہے ،لہذا اس کا گھر میں رہنا اب ٹھیک نہیں ۔ یہ مسئلہ بار بار پیدا ہو گا ۔ بیج دینا ہی بہتر ہے ۔ممکن ہے دوسرے گھر کے حالات اس کی یہ عادت چھڑا دی لیکن بیچتے وقت اس کایہ عیب خریدنے والے کو صاف بتایا جائے تاکہ وہ دھوکے میں نہ رہے ورنہ گناہ ہو گا ، نیز سودا واپس بھی ہو سکتا ہے ۔ (3)’’نصف قیمت ،، عربی میں لفظ ’’نش،، استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی نصف اوقیہ ہوتے ہیں اور مطلق نصف بھی۔ نصف اوقیہ تو بیس درہم کا ہوتاہے۔مطلق نصف سے مراد نصف درہم بھی ہو سکتا ہے اور نصف قیمت بھی ۔ تینون معانی ممکن ہیں۔ واللہ اعلم . (4) بیچنے کا حکم ضروری نہیں بلکہ بہتر ہے کیو نکہ کسی کوا س کا غلام بیچنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ اس کی اپنی مرضی پر موقوف ہے ۔