سنن النسائي - حدیث 4980

كِتَابُ قَطْعِ السَّارِقِ بَاب قَطْعِ الرِّجْلِ مِنْ السَّارِقِ بَعْدَ الْيَدِ منكر أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سَلْمٍ الْمَصَاحِفِيُّ الْبَلْخِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ أَنْبَأَنَا يُوسُفُ عَنْ الْحَارِثِ بْنِ حَاطِبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلِصٍّ فَقَالَ اقْتُلُوهُ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا سَرَقَ فَقَالَ اقْتُلُوهُ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا سَرَقَ قَالَ اقْطَعُوا يَدَهُ قَالَ ثُمَّ سَرَقَ فَقُطِعَتْ رِجْلُهُ ثُمَّ سَرَقَ عَلَى عَهْدِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَتَّى قُطِعَتْ قَوَائِمُهُ كُلُّهَا ثُمَّ سَرَقَ أَيْضًا الْخَامِسَةَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْلَمَ بِهَذَا حِينَ قَالَ اقْتُلُوهُ ثُمَّ دَفَعَهُ إِلَى فِتْيَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ لِيَقْتُلُوهُ مِنْهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ وَكَانَ يُحِبُّ الْإِمَارَةَ فَقَالَ أَمِّرُونِي عَلَيْكُمْ فَأَمَّرُوهُ عَلَيْهِمْ فَكَانَ إِذَا ضَرَبَ ضَرَبُوهُ حَتَّى قَتَلُوهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4980

کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے کا بیان ہاتھ کاٹنے کے بعد (مزید چوری کی صورت میں ) چور کا پاؤں کاٹنا حضرت حارث بن حاطب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چور لایا گیا ۔ آپ فرمایا :’’اسے قتل کردو،، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس نے تو چور ی کی ہے ؟آپ نے فرمایا: ’’اسے قتل کردو۔،، لوگوں نے پھر کہا :اللہ کے رسول ! اس نے تو صرف چوری کی ہے ؟ آپ نے فرمایا:’’ ا س کا ہاتھی کاٹ دو ۔،، اس نے پھر چوری کر لی ۔ پھر اس کا پاؤں کاٹ دیا گیا۔ پھر اس نے حضرت ابو بکر ؓ کے دور میں چوری کر لی حتیٰ کہ ایک ایک کر کے اس کے چاروں ہاتھ پاؤں کاٹ دیے گئے ۔پھر اس نے پانچویں دفعہ چوری کرلی ۔ حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا : رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کواس (کی حثییت کا خوف علم تھا ۔تبھی تو آپ نے (پہلی دفعہ ہی فرما یا تھا:’’اسے قتل کردو۔،،پھر حضرت ابوبکر ؓ نے اسے چند قریشی نوجوانوں کے سپرد کردیا اسے قتل کردیں ۔ان نوجوانوں میں حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ بھی شامل تھے ۔ وہ حکومت کے بڑے شائق تھے ۔ وہ کہنے لگے : تم مجھےاپنا (وقتی ) امیر بنا لو ۔ انھوں نے ان کوامیر بنا لیا۔ جب وہ اسے مارتے تھے ، تب دوسرے مارتے تھے حتیٰ کہ اس طرح انھوں نے اس چور کوقتل کر دیا ۔
تشریح : (1)’’اسے قتل کردو،، آپ کامقصود قتل کاحکم نہ تھا بلکہ یہ آپ کی پیش گوئی تھی کہ اس کانجام کار قتل ہو گا ، جو اس کے حق میں پوری ہوئی ۔یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو بذریعہ وحی بتایا گیا ہو کہ یہ شخص باز نہیں آئے گا اور بالآخر اسے قتل کرنا پڑے گا ،اس لیے آپ نے پہلی بار ہی قتل کاحکم دیا۔ صحابہ کرامؓ نے آپ کے حکم کی تعمیل میں تردد اس لیے کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود چور کی سزا ہاتھ کاٹنا بتائی تھی ۔وہ سمجھے کہ آپ کو اس کے کا جرم صحیح اندازہ نہیں ہوا، اس لیے صحابہ نے جب اس کے جرم کی دوبارہ وضاحت کی تو آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ۔ (2)’’پاؤں کاٹ دیا گیا،، قرآن مجید میں چوری کی سزا میں صرف ہاتھ کاٹنے کا ذکر ہے ،اس لیے بعض لوگ چوری کی سزا میں پاؤں کاٹنے کے قائل نہیں لیکن جمہور اہل علم پاؤں کاٹنے کے قائل ہیں کہ دوسری چوری پر بایا ں پاؤں کاٹ دیا جائے ۔پھر چوری کرلے تو بایاں ہاتھ اور پھر چوری کرے تو دایاں پاؤں ۔ اگر پانچویں دفعہ چوری کرے تو اسے جیل میں ڈال دیاجائے ۔بعض پانچویں دفعہ چوری پر قتل کے قائل ہیں جیسا کہ اس حدیث میں ہے ۔ بعض اہل عمل ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کے بعد قطع کے قائل نہیں کیونکہ اس طرح وہ بالکل اپاہج ہو جائے گا اور اپنے کام کاج کے قابل نہیں رہے گا ۔ نہ کھا پی سکے گا ، نہ استنجا کرسکے گا اور نہ دوسرے کام ہی کر سکے گا ۔آخر یہ کام کو ں کرےگا؟جمہور اہل علم کی دلیل آیت محاربہ بھی ہے ۔ اس میں فسادی لوگوں کے لیے ہاتھ پاؤن کاٹنےکا صریح ذکر ہے ۔(او تقطع ایدیھم وارجلھم من خلاف ) (المائدۃ5:33) عقلا بھی ہاتھ پاؤں کا حکم ایک ہے ،لہذا جمہور کامسلک ہی صحیح ہے ۔ (1)’’اسے قتل کردو،، آپ کامقصود قتل کاحکم نہ تھا بلکہ یہ آپ کی پیش گوئی تھی کہ اس کانجام کار قتل ہو گا ، جو اس کے حق میں پوری ہوئی ۔یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو بذریعہ وحی بتایا گیا ہو کہ یہ شخص باز نہیں آئے گا اور بالآخر اسے قتل کرنا پڑے گا ،اس لیے آپ نے پہلی بار ہی قتل کاحکم دیا۔ صحابہ کرامؓ نے آپ کے حکم کی تعمیل میں تردد اس لیے کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود چور کی سزا ہاتھ کاٹنا بتائی تھی ۔وہ سمجھے کہ آپ کو اس کے کا جرم صحیح اندازہ نہیں ہوا، اس لیے صحابہ نے جب اس کے جرم کی دوبارہ وضاحت کی تو آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ۔ (2)’’پاؤں کاٹ دیا گیا،، قرآن مجید میں چوری کی سزا میں صرف ہاتھ کاٹنے کا ذکر ہے ،اس لیے بعض لوگ چوری کی سزا میں پاؤں کاٹنے کے قائل نہیں لیکن جمہور اہل علم پاؤں کاٹنے کے قائل ہیں کہ دوسری چوری پر بایا ں پاؤں کاٹ دیا جائے ۔پھر چوری کرلے تو بایاں ہاتھ اور پھر چوری کرے تو دایاں پاؤں ۔ اگر پانچویں دفعہ چوری کرے تو اسے جیل میں ڈال دیاجائے ۔بعض پانچویں دفعہ چوری پر قتل کے قائل ہیں جیسا کہ اس حدیث میں ہے ۔ بعض اہل عمل ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کے بعد قطع کے قائل نہیں کیونکہ اس طرح وہ بالکل اپاہج ہو جائے گا اور اپنے کام کاج کے قابل نہیں رہے گا ۔ نہ کھا پی سکے گا ، نہ استنجا کرسکے گا اور نہ دوسرے کام ہی کر سکے گا ۔آخر یہ کام کو ں کرےگا؟جمہور اہل علم کی دلیل آیت محاربہ بھی ہے ۔ اس میں فسادی لوگوں کے لیے ہاتھ پاؤن کاٹنےکا صریح ذکر ہے ۔(او تقطع ایدیھم وارجلھم من خلاف ) (المائدۃ5:33) عقلا بھی ہاتھ پاؤں کا حکم ایک ہے ،لہذا جمہور کامسلک ہی صحیح ہے ۔