سنن النسائي - حدیث 4977

كِتَابُ قَطْعِ السَّارِقِ بَاب مَا لَا قَطْعَ فِيهِ ضعيف أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ حَجَّاجٍ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ قَالَ جَابِرٌ لَيْسَ عَلَى الْخَائِنِ قَطْعٌ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عِيسَى بْنُ يُونُسَ وَالْفَضْلُ بْنُ مُوسَى وَابْنُ وَهْبٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ وَمَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ وَسَلَمَةُ بْنُ سَعِيدٍ بَصْرِيٌّ ثِقَةٌ قَالَ ابْنُ أَبِي صَفْوَانَ وَكَانَ خَيْرَ أَهْلِ زَمَانِهِ فَلَمْ يَقُلْ أَحَدٌ مِنْهُمْ حَدَّثَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ وَلَا أَحْسَبُهُ سَمِعَهُ مِنْ أَبِي الزُّبَيْرِ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4977

کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے کا بیان کن چیزوں کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا؟ حضرت جابر ؓ نے فرمایا: خیانت کرنے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا ۔ ابو عبد الرحمٰن (امام نسائی ﷫) نے فرمایا : عیسیٰ بن یونس ، فضل بن موسیٰ ، ابن وہب ، محمد بن ربیعہ ، مخلد بن یزید اور سلمہ بن سعید جو کہ بصری اور ثقہ ہیں (اور جن کے بارےمیں محمد بن عثمان )ابن ابو صفوان نے کہا ہےکہ وہ (سلمہ بن سعید )اپنے زمانے کے بہترین شخص تھے ، ان سب نےابن جریج سےیہ (مذکورہ ) روایت بیان کی ہے لیکن ان (چھ جلیل القدر اور ثقہ اہل علم میں سے کسی ایک نے بھی ’’حدثنی ابو الزبیر ،،نہیں کہا۔اور میرا نہیں خیال کہ اس (ابن جریج ) نے ابو الزبیر سے سنا ہو ۔واللہ اعلم .
تشریح : امام نسائی ﷫ کے کلام کا ما حاصل یہ ہے کہ یہ روایت سندا منقطع ہے۔ انھوں نے ابو الزبیر سےابن جریج کے، یہ روایت سننے کی نفی کی ہے ۔ امام نسائی کا کہنا ہے کہ مذکورہ چھ جید اہل علم نے ابن جریج سے یہ روایت تو بیان کی ہے لیکن ان میں سےکسی نے بھی ابو الزبیر سے ان کے سماع (سننے ) کی تصریح نہیں کی ، اس لیے یہ روایت منقطع ، یعنی ضغیف ہے ۔یہ ہے امام نسائی ﷫ کا رجحان لیکن مذکورہ چھ اہل علم کا ابن جریج کے ابو الزبیر سے مذکورہ حدیث کے سماع کی تصریح سے ان محدثین کےاثبات تصریح کی نفی نہیں سکتی جنھوں نے ابن جریج کے ابو الزبیر سے، مذکورہ حدیث سننے کی تصریح کی ہے ۔ ویسے بھی اثبات کرنے والا نفی کرنے والے سےمقدم ہوتا ہے کیو نکہ جس شخص کو بات یا د ہوتی ہےوہاس شخص کے مقابلے میں حجت ہوتا ہےجسے بات یاد نہیں ہوتی ۔یہ مسلمہ اصول ہے ۔ محقق العصر شیخ ناصر الدین البانی ﷫ نے صحیح سند سے ابن جریج کے ابو الزبیر سےسماع کی تصریح کی ہے جیسا کہ پہلے بھی ارشاد کیا گیا ہے ۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں : (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی للا تیوبی : 37/99۔101،والمصنف لعبد الرزاق : 10/206) مصنف عبد الرزاق کے الفاظ توسماع میں بالکل اور دوٹوک ہیں جو یہ ہیں : عن ابن جریج ، قال :قال لی ابو الزبیر ، یعنی ابن جریج نے کہا ہےکہ مجھے ابو الزبیر نے کہا ، پھر مذکورہ روایت بیان کی ، لہذا جب صحیح طور پر تحدیث وسماع کی صراحت موجود ہے تو یقینا اسے ہی تر جیح حاصل ہو گی۔ امام نسائی ﷫ کے کلام کا ما حاصل یہ ہے کہ یہ روایت سندا منقطع ہے۔ انھوں نے ابو الزبیر سےابن جریج کے، یہ روایت سننے کی نفی کی ہے ۔ امام نسائی کا کہنا ہے کہ مذکورہ چھ جید اہل علم نے ابن جریج سے یہ روایت تو بیان کی ہے لیکن ان میں سےکسی نے بھی ابو الزبیر سے ان کے سماع (سننے ) کی تصریح نہیں کی ، اس لیے یہ روایت منقطع ، یعنی ضغیف ہے ۔یہ ہے امام نسائی ﷫ کا رجحان لیکن مذکورہ چھ اہل علم کا ابن جریج کے ابو الزبیر سے مذکورہ حدیث کے سماع کی تصریح سے ان محدثین کےاثبات تصریح کی نفی نہیں سکتی جنھوں نے ابن جریج کے ابو الزبیر سے، مذکورہ حدیث سننے کی تصریح کی ہے ۔ ویسے بھی اثبات کرنے والا نفی کرنے والے سےمقدم ہوتا ہے کیو نکہ جس شخص کو بات یا د ہوتی ہےوہاس شخص کے مقابلے میں حجت ہوتا ہےجسے بات یاد نہیں ہوتی ۔یہ مسلمہ اصول ہے ۔ محقق العصر شیخ ناصر الدین البانی ﷫ نے صحیح سند سے ابن جریج کے ابو الزبیر سےسماع کی تصریح کی ہے جیسا کہ پہلے بھی ارشاد کیا گیا ہے ۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں : (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی للا تیوبی : 37/99۔101،والمصنف لعبد الرزاق : 10/206) مصنف عبد الرزاق کے الفاظ توسماع میں بالکل اور دوٹوک ہیں جو یہ ہیں : عن ابن جریج ، قال :قال لی ابو الزبیر ، یعنی ابن جریج نے کہا ہےکہ مجھے ابو الزبیر نے کہا ، پھر مذکورہ روایت بیان کی ، لہذا جب صحیح طور پر تحدیث وسماع کی صراحت موجود ہے تو یقینا اسے ہی تر جیح حاصل ہو گی۔