سنن النسائي - حدیث 495

كِتَابُ الْمَوَاقِيتِ إمامة جبريل وتحيد أوقات الصلوات الخمس صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَخَّرَ الْعَصْرَ شَيْئًا فَقَالَ لَهُ عُرْوَةُ أَمَا إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام قَدْ نَزَلَ فَصَلَّى إِمَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عُمَرُ اعْلَمْ مَا تَقُولُ يَا عُرْوَةُ فَقَالَ سَمِعْتُ بَشِيرَ بْنَ أَبِي مَسْعُودٍ يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ نَزَلَ جِبْرِيلُ فَأَمَّنِي فَصَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ يَحْسُبُ بِأَصَابِعِهِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 495

کتاب: اوقات نماز سے متعلق احکام و مسائل حضرت جبریل کی امامت اور پنجگانہ نماز کے اوقات کی حد بندی امام ابن شہاب زہری سے روایت ہے کہ حضر ت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ (گورنر مدینہ) نے عصر کی نماز وقت سے کچھ مؤخر کی تو حضرت عروہ نے ان سے فرمایا: جبریل علیہ السلام اترے تھے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کھڑے ہوکر آپ کو نماز پڑھائی تھی۔ عمر بن عبدالعزیز کہنے لگے: عروہ دیکھو! کیا کہہ رہے ہو؟ انھوں نے کہا: میں نے بشیر بن ابومسعود کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے ابومسعود رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جبریل علیہ السلام اترے اور مجھے نماز پڑھائی۔ میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوںپر پانچوں نمازیں شمار کیں۔
تشریح : (۱)حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے نماز عصر کو مستحب وقت سے کچھ مؤخر کیا تھا، نہ کہ کل وقت سے۔ اور یہ ولید بن عبدالملک کے دور کی بات ہے جبکہ آپ اس کی طرف سے مدینے کے گورنر مقرر ہوئے تھے۔ حضرت عروہ کا مقصد یہ تھا کہ نماز کا وقت انتہائی اہمیت کا حامل ہے حتیٰ کہ وقت بتلانے کے لیے حضرت جبریل علیہ السلام اترے تھے، لہٰذا نماز کی ادائیگی میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔ (۲)حضرت جبریل علیہ السلام نے دو دن نماز پڑھائی تھی۔ پہلے دن سب نمازیں اول وقت میں اور دوسرے دن آخر وقت میں۔ اس روایت میں اوقات ذکر نہیں کیے گئے کیونکہ مقصد صرف یہ بتلانا تھا کہ جبریل علیہ السلام نے اوقات بتلائے تھے، اوقات کا علم حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو پہلے سے تھا۔ ان کے بارے میں منقول ہے کہ مذکورہ روایت سننے کے بعد انھوں نے کبھی نماز میں تاخیر نہیں کی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: ۶؍۲۴۱۔۲۵۵) (۳)امراء اگر کسی خلاف سنت کام کا ارتکاب کریں تو اہل علم کی ذمے داری ہے کہ ان کی اصلاح کریں اور گاہے گاہے انھیں تنبیہ کرتے رہیں۔ (۴)عالم دین سے مسئلے کی دلیل طلب کی جاسکتی ہے اور عالم کو چاہیے کہ وہ خالص کتاب و سنت کے دلائل سے سائل کی تشفی کرائے۔ (۵)اختلاف کے وقت قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ (۶)خبر واحد حجت ہے۔ (۱)حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے نماز عصر کو مستحب وقت سے کچھ مؤخر کیا تھا، نہ کہ کل وقت سے۔ اور یہ ولید بن عبدالملک کے دور کی بات ہے جبکہ آپ اس کی طرف سے مدینے کے گورنر مقرر ہوئے تھے۔ حضرت عروہ کا مقصد یہ تھا کہ نماز کا وقت انتہائی اہمیت کا حامل ہے حتیٰ کہ وقت بتلانے کے لیے حضرت جبریل علیہ السلام اترے تھے، لہٰذا نماز کی ادائیگی میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔ (۲)حضرت جبریل علیہ السلام نے دو دن نماز پڑھائی تھی۔ پہلے دن سب نمازیں اول وقت میں اور دوسرے دن آخر وقت میں۔ اس روایت میں اوقات ذکر نہیں کیے گئے کیونکہ مقصد صرف یہ بتلانا تھا کہ جبریل علیہ السلام نے اوقات بتلائے تھے، اوقات کا علم حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو پہلے سے تھا۔ ان کے بارے میں منقول ہے کہ مذکورہ روایت سننے کے بعد انھوں نے کبھی نماز میں تاخیر نہیں کی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: ۶؍۲۴۱۔۲۵۵) (۳)امراء اگر کسی خلاف سنت کام کا ارتکاب کریں تو اہل علم کی ذمے داری ہے کہ ان کی اصلاح کریں اور گاہے گاہے انھیں تنبیہ کرتے رہیں۔ (۴)عالم دین سے مسئلے کی دلیل طلب کی جاسکتی ہے اور عالم کو چاہیے کہ وہ خالص کتاب و سنت کے دلائل سے سائل کی تشفی کرائے۔ (۵)اختلاف کے وقت قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ (۶)خبر واحد حجت ہے۔