سنن النسائي - حدیث 4911

كِتَابُ قَطْعِ السَّارِقِ الْقَدْرُ الَّذِي إِذَا سَرَقَهُ السَّارِقُ قُطِعَتْ يَدُهُ صحيح أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ أَنَّ نَافِعًا حَدَّثَهُمْ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ قَطَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مِجَنٍّ ثَمَنُهُ ثَلَاثَةُ دَرَاهِمَ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ هَذَا الصَّوَابُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4911

کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے کا بیان وہ مقدار جس کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹ دیا تھا جس کی قیمت تین درہم تھی ۔ ابو عبدالرحمن ( امام نسائی رحمہ اللہ) بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت درست ہے ۔
تشریح : 1۔کتنی مالیت کی چیز چرانے پر ہاتھ کاٹا جائے گا ؟ مذکورہ باب کے تحت بیا ن کی گئی پہلی روایت (4910) میں ڈھال کی قیمت پانچ درہم بیان کی گئی ہے یہ قطعا درست نہیں یہ راوی کا وہم اور اس کی غلطی ہے ۔ دیگر صحیح روایات میں ڈھال کی قیمت تین درہم بیان کی گئی ہے جیسا کہ آئندہ روایت میں ہے ۔ پانچ درہم والی روایت شاذ ( ضعیف) ہے کیونکہ اس کے راوی مخلد نے اپنے سے اوثق واحفظ راویوں کی مخالفت کی ہے ۔ انہوں نے حضرت نافع  سے یہ روایت بیان کی تو قیمت تین درہم بیان کی ہے جبکہ یہ پانچ درہم بیان کرتے ہیں ۔ اگرچہ ڈھال کی قیمت مختلف ہو سکتی ہے مگر چونکہ یہ ایک ہی روایت کی دو سندیں ہیں لہذا ایک کو راوی کی غلطی کہا جائے گا ۔ ویسے اگر دونوں روایات صحیح ہوں تب بھی کوئی فرق نہ پڑتا کیونکہ تین درہم یا اس سے زائد میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے ۔ اگر کوئی چیز سو درہم کی ہو تو اس میں بھی کاٹا جائے گا ، اگر لاکھ درہم کی ہو تب بھی لہذا پانچ درہم میں ہاتھ کاٹنے سے تین درہم میں ہاتھ کاٹنے کی نفی نہیں ہوتی ۔ البتہ تین درہم سے کم میں ہاتھ کاٹنے کا کہیں ذکر نہیں ، لہذا تین درہم اور ربع دینار میں کوئی فرق نہیں ۔ نبیﷺ کے دور میں دینار دس ، بارہ درہم کا ہوتا تھا ۔ بارہ کا چوتھائی تو تین ہی ہے ۔ دس کا ربع بھی تین دینار ہی کو کہا جائے گا کیونکہ شریعت کسر پر حکم نہیں لگاتی بلکہ اسے پورا کر دیتی ہے ، یعنی ڈھائی درہم کی بجائے تین درہم پر قطع ید کا حکم لگے گا ۔ تین درہم اور ربع دینار کی روایات قطعا صحیح اور بخاری ومسلم کی ہیں ، اس لیے انہی پر عمل ہوگا۔ احناف نے بعض ضعیف روایات کی بنا پر نصاب مسروقہ دس درہم مقرر کیا ہے ۔ یہ بات سراسر اصول کے خلاف ہے کہ صحیح احادیث کے مقابلے میں ضعیف روایت کو ترجیح دی جائے ۔ اگرچہ احناف نے اسے احتیاط قرار دیا ہے مگر یہ عجیب احتیاط ہے جس سے شریعت کا صحیح اور صریح حکم کالعدم ہو جائے۔ 1۔کتنی مالیت کی چیز چرانے پر ہاتھ کاٹا جائے گا ؟ مذکورہ باب کے تحت بیا ن کی گئی پہلی روایت (4910) میں ڈھال کی قیمت پانچ درہم بیان کی گئی ہے یہ قطعا درست نہیں یہ راوی کا وہم اور اس کی غلطی ہے ۔ دیگر صحیح روایات میں ڈھال کی قیمت تین درہم بیان کی گئی ہے جیسا کہ آئندہ روایت میں ہے ۔ پانچ درہم والی روایت شاذ ( ضعیف) ہے کیونکہ اس کے راوی مخلد نے اپنے سے اوثق واحفظ راویوں کی مخالفت کی ہے ۔ انہوں نے حضرت نافع  سے یہ روایت بیان کی تو قیمت تین درہم بیان کی ہے جبکہ یہ پانچ درہم بیان کرتے ہیں ۔ اگرچہ ڈھال کی قیمت مختلف ہو سکتی ہے مگر چونکہ یہ ایک ہی روایت کی دو سندیں ہیں لہذا ایک کو راوی کی غلطی کہا جائے گا ۔ ویسے اگر دونوں روایات صحیح ہوں تب بھی کوئی فرق نہ پڑتا کیونکہ تین درہم یا اس سے زائد میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے ۔ اگر کوئی چیز سو درہم کی ہو تو اس میں بھی کاٹا جائے گا ، اگر لاکھ درہم کی ہو تب بھی لہذا پانچ درہم میں ہاتھ کاٹنے سے تین درہم میں ہاتھ کاٹنے کی نفی نہیں ہوتی ۔ البتہ تین درہم سے کم میں ہاتھ کاٹنے کا کہیں ذکر نہیں ، لہذا تین درہم اور ربع دینار میں کوئی فرق نہیں ۔ نبیﷺ کے دور میں دینار دس ، بارہ درہم کا ہوتا تھا ۔ بارہ کا چوتھائی تو تین ہی ہے ۔ دس کا ربع بھی تین دینار ہی کو کہا جائے گا کیونکہ شریعت کسر پر حکم نہیں لگاتی بلکہ اسے پورا کر دیتی ہے ، یعنی ڈھائی درہم کی بجائے تین درہم پر قطع ید کا حکم لگے گا ۔ تین درہم اور ربع دینار کی روایات قطعا صحیح اور بخاری ومسلم کی ہیں ، اس لیے انہی پر عمل ہوگا۔ احناف نے بعض ضعیف روایات کی بنا پر نصاب مسروقہ دس درہم مقرر کیا ہے ۔ یہ بات سراسر اصول کے خلاف ہے کہ صحیح احادیث کے مقابلے میں ضعیف روایت کو ترجیح دی جائے ۔ اگرچہ احناف نے اسے احتیاط قرار دیا ہے مگر یہ عجیب احتیاط ہے جس سے شریعت کا صحیح اور صریح حکم کالعدم ہو جائے۔