سنن النسائي - حدیث 4908

كِتَابُ قَطْعِ السَّارِقِ التَّرْغِيبُ فِي إِقَامَةِ الْحَدِّ حسن بلفظ " أربعين " أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ عِيسَى بْنِ يَزِيدَ قَالَ حَدَّثَنِي جَرِيرُ بْنُ يَزِيدَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا زُرْعَةَ بْنَ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدٌّ يُعْمَلُ فِي الْأَرْضِ خَيْرٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ مِنْ أَنْ يُمْطَرُوا ثَلَاثِينَ صَبَاحًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4908

کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے کا بیان حد قائم کرنے کی ترغیب حضرت ابوہرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ زمین میں ایک حد کا لگایا جانا زمین پر رہنے والوں کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ ان پر تیس دن بارش برسے۔‘‘
تشریح : ۔کچھ سزائیں ’’ حد‘‘ کہلاتی ہیں اور کچھ ’’ تعزیر‘‘ ۔ حد تو وہ سزا ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہو جبکہ تعزیر اس سزا کو کہتے ہیں جو قاضی اور جج یا کوئی بھی ذمہ دار شخص جرم کی نوعیت دیکھ کر مناسبت سے اس جرم کی روک تھام کے لیے اپنی صواب دید کے مطابق دے سکتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تعزیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے ۔ البتہ حد اور تعزیر دونوں کے نفاذ کا مقصد لوگوں کو جرائم سے روکنا ہوتا ہے ۔ یہ سزائیں اس لیے دی جاتی ہیں کہ مجرم کا حشر دیکھ کر دوسرے لوگ عبرت حاصل کریں اور جرم سے اجتناب کریں۔ 2۔ عام طور پر بارش ہر جگہ اور ہر علاقے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن صحرائی علاقوں میں اس کی ضرورت کئی گنا زیادہ ہوتی ہے ۔ عرب جو بہت بڑے صحرائی علاقے پر مشتمل ہے وہاں اس کی ضرورت مسلمہ ہے اس لیے اس سے تشبیہ دی ۔ 3۔ ’’ بہتر ہے ‘‘ کیونکہ حدود کا نفاذ معاشرے میں امن وامان اور سکون و اطمینان پیدا کرتا ہے نیز لڑائی جھگڑے اور خون ریزی کو ختم کرتا ہے ۔ بارش کا فائدہ وقتی ہے مگر حدود کا فائدہ دائمی اور مستقل ہے نیز بارش صرف دنیا میں مفید ہے جب کہ حدود کا نفاذ آخرت میں بھی مفید ہوگا ۔ رزق کا کیا فائدہ اگر جان اور مال وعزت ہی محفوظ نہ ہو؟ بلکہ رزق کی کثرت بسا اوقات جان وعوت کے لیے خطرہ بن جاتی ہے جب معاشرے میں امن و امان نہ ہو ۔ حدود انسان کے جان و مال اور عزت کو محفوظ کرنے کے لیے نسخہ کیمیا ہیں ۔ تجربہ شرط ہے۔ 4۔ ’’ تیس دن‘‘ کثرت مراد ہے جیسا کہ آئندہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے نیز یہ ایک فرضی بات ہے ورنہ مسلسل تیس دن بارش برستی رہے تو نقصان کا سبب بن سکتی ہے ۔ البتہ پہاڑی علاقوں میں مسلسل بارش بھی مفید رہتی ہے یا وقفے وقفے سے مراد ہوگی ، یعنی ضرورت کے مطابق پڑتی رہے ۔ بارش کا خصوصی ذکر اس لیے فرمایا کہ بارش کے ساتھ ہی زمینی زندگی کی بقا ہے۔ ۔کچھ سزائیں ’’ حد‘‘ کہلاتی ہیں اور کچھ ’’ تعزیر‘‘ ۔ حد تو وہ سزا ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہو جبکہ تعزیر اس سزا کو کہتے ہیں جو قاضی اور جج یا کوئی بھی ذمہ دار شخص جرم کی نوعیت دیکھ کر مناسبت سے اس جرم کی روک تھام کے لیے اپنی صواب دید کے مطابق دے سکتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تعزیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے ۔ البتہ حد اور تعزیر دونوں کے نفاذ کا مقصد لوگوں کو جرائم سے روکنا ہوتا ہے ۔ یہ سزائیں اس لیے دی جاتی ہیں کہ مجرم کا حشر دیکھ کر دوسرے لوگ عبرت حاصل کریں اور جرم سے اجتناب کریں۔ 2۔ عام طور پر بارش ہر جگہ اور ہر علاقے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن صحرائی علاقوں میں اس کی ضرورت کئی گنا زیادہ ہوتی ہے ۔ عرب جو بہت بڑے صحرائی علاقے پر مشتمل ہے وہاں اس کی ضرورت مسلمہ ہے اس لیے اس سے تشبیہ دی ۔ 3۔ ’’ بہتر ہے ‘‘ کیونکہ حدود کا نفاذ معاشرے میں امن وامان اور سکون و اطمینان پیدا کرتا ہے نیز لڑائی جھگڑے اور خون ریزی کو ختم کرتا ہے ۔ بارش کا فائدہ وقتی ہے مگر حدود کا فائدہ دائمی اور مستقل ہے نیز بارش صرف دنیا میں مفید ہے جب کہ حدود کا نفاذ آخرت میں بھی مفید ہوگا ۔ رزق کا کیا فائدہ اگر جان اور مال وعزت ہی محفوظ نہ ہو؟ بلکہ رزق کی کثرت بسا اوقات جان وعوت کے لیے خطرہ بن جاتی ہے جب معاشرے میں امن و امان نہ ہو ۔ حدود انسان کے جان و مال اور عزت کو محفوظ کرنے کے لیے نسخہ کیمیا ہیں ۔ تجربہ شرط ہے۔ 4۔ ’’ تیس دن‘‘ کثرت مراد ہے جیسا کہ آئندہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے نیز یہ ایک فرضی بات ہے ورنہ مسلسل تیس دن بارش برستی رہے تو نقصان کا سبب بن سکتی ہے ۔ البتہ پہاڑی علاقوں میں مسلسل بارش بھی مفید رہتی ہے یا وقفے وقفے سے مراد ہوگی ، یعنی ضرورت کے مطابق پڑتی رہے ۔ بارش کا خصوصی ذکر اس لیے فرمایا کہ بارش کے ساتھ ہی زمینی زندگی کی بقا ہے۔