سنن النسائي - حدیث 4907

كِتَابُ قَطْعِ السَّارِقِ ذِكْرُ اخْتِلَافِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ الزُّهْرِيِّ فِي الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ صحيح أَخْبَرَنَا سُوَيْدٌ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ يُونُسَ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ امْرَأَةً سَرَقَتْ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ الْفَتْحِ مُرْسَلٌ فَفَزِعَ قَوْمُهَا إِلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ يَسْتَشْفِعُونَهُ قَالَ عُرْوَةُ فَلَمَّا كَلَّمَهُ أُسَامَةُ فِيهَا تَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَتُكَلِّمُنِي فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ قَالَ أُسَامَةُ اسْتَغْفِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمَّا كَانَ الْعَشِيُّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّمَا هَلَكَ النَّاسُ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِ تِلْكَ الْمَرْأَةِ فَقُطِعَتْ فَحَسُنَتْ تَوْبَتُهَا بَعْدَ ذَلِكَ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَكَانَتْ تَأْتِينِي بَعْدَ ذَلِكَ فَأَرْفَعُ حَاجَتَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4907

کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے کا بیان مخزومی چور عورت والی زہری کی روایت میں لفظی اختلاف حضرت عروہ بن زبیر سے مرسلا روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں فتح مکہ کی جنگ کے وقت ایک عورت نے چوری کرلی ۔ اس کی قوم کے لوگ گھبرا کر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے پاس آئے کہ وہ اس کی سفارش فرمادیں ۔ جب حضرت اسامہ نے آپ سے اس کی بابت بات چیت کی تو رسول اللہ ﷺ کے چہرا اقدس کا رنگ بدل گیا۔ آپ نے فرمایا :’’ کیا تو اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتا ہے ؟‘‘ اسامہ نے کہا : اے اللہ کے رسول! میرے لیے استغفار فرمائیں ۔ ظہر کے بعد رسول اللہ ﷺ خطبے کے لیے کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی تعریف فرمائی جو اس کی شان کے لائق ہے ۔ پھر فرمایا:’’ اما بعد ( اے لوگو!) تم سے پہلے لوگ اس بنا پر تباہ ہوئے کہ جب ان میں کوئی طاقت ور شخص چوری کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے ۔ اور جب کوئی کمزور شخص چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کردیتے ۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد(ﷺ) کی جان ہے ! اگر ( بالفرض) فاطمہ بنت محمد (ﷺ) چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ۔ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ لیکن اس کے بعد اس نے بہت اچھی توبہ کرلی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اس کے بعد وہ میرے پاس آیا کرتی تھی اور میں اس کی گزارشات و ضروریات رسول اللہ (ﷺ) کی میں پیش کیا کرتی تھی۔
تشریح : 1۔مذکورہ تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حدود میں سفارش کرنا ممنوع ہے بشرطیکہ معاملہ عدالت یا حکام بالا تک پہنچ چکا ہو۔ 2۔ ان احادیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح چوری کرنے والے مرد کا ہاتھ کاٹا جاسکتا ہے اسی طرح چوری کرنے والی عورت کا ہاتھ بھی کاٹا جاسکتا ہے ۔ قرآن کریم نے تو مکمل صراحت کے ساتھ چور مرد اور چور عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ہے ۔ دیکھیے ( المائدۃ 5: 38) 3۔حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہما کی عظیم قدرت و منزلت پر بھی یہ احادیث واضح دلالت کرتی ہیں کہ وہ نہ صرف رسول اللہ ﷺ کے محبوب تھے بلکہ لوگوں میں بھی محبوب سمجھے جاتے تھے ۔ 4۔ مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہﷺ کے ہاں بہت زیادہ قدر و منزلت کی حامل تھیں ، تاہم یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حدود اللہ کے قائم کرنے میں نہ تو کسی کی محبت کو خاطر میں لایا جاسکتا ہے اور نہ کسی کی سفارش ہی قبول کی جاسکتی ہے ۔ واللہ اعلم 5۔ ’’ آیا کرتی تھی‘‘ گویا وہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئی تھی ۔ توبہ اور سزا کے بعد گناہ ختم ہو جاتا ہے ۔ 6۔ کسی حدیث کی تمام اسانید کو تفصیلا بیان کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ واقعے کی تمام تفصیلات سامنے آجاتی ہیں ، کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔ 1۔مذکورہ تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حدود میں سفارش کرنا ممنوع ہے بشرطیکہ معاملہ عدالت یا حکام بالا تک پہنچ چکا ہو۔ 2۔ ان احادیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح چوری کرنے والے مرد کا ہاتھ کاٹا جاسکتا ہے اسی طرح چوری کرنے والی عورت کا ہاتھ بھی کاٹا جاسکتا ہے ۔ قرآن کریم نے تو مکمل صراحت کے ساتھ چور مرد اور چور عورت کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ہے ۔ دیکھیے ( المائدۃ 5: 38) 3۔حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہما کی عظیم قدرت و منزلت پر بھی یہ احادیث واضح دلالت کرتی ہیں کہ وہ نہ صرف رسول اللہ ﷺ کے محبوب تھے بلکہ لوگوں میں بھی محبوب سمجھے جاتے تھے ۔ 4۔ مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہﷺ کے ہاں بہت زیادہ قدر و منزلت کی حامل تھیں ، تاہم یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ حدود اللہ کے قائم کرنے میں نہ تو کسی کی محبت کو خاطر میں لایا جاسکتا ہے اور نہ کسی کی سفارش ہی قبول کی جاسکتی ہے ۔ واللہ اعلم 5۔ ’’ آیا کرتی تھی‘‘ گویا وہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ آگئی تھی ۔ توبہ اور سزا کے بعد گناہ ختم ہو جاتا ہے ۔ 6۔ کسی حدیث کی تمام اسانید کو تفصیلا بیان کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ واقعے کی تمام تفصیلات سامنے آجاتی ہیں ، کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔