سنن النسائي - حدیث 490

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَاب فَرْضِ الْقِبْلَةِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَصَلَّى نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا ثُمَّ إِنَّهُ وُجِّهَ إِلَى الْكَعْبَةِ فَمَرَّ رَجُلٌ قَدْ كَانَ صَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَوْمٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ أَشْهَدُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ وُجِّهَ إِلَى الْكَعْبَةِ فَانْحَرَفُوا إِلَى الْكَعْبَةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 490

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل قبلہ کب مقررہوا؟ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے سولہ(۱۶) مہینوں تک بیت المقدس کی طرف (منہ کرکے) نماز پڑھی، پھر آپ کا رخ کعبہ کی طرف کردیا گیا۔ ایک آدمی جس نے (قبلے کی تبدیلی کے بعد) آپ کے ساتھ نماز پڑھی تھی، انصار کے ایک قبیلے کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا: میں قسم کھاتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبلہ کعبے کی طرف کردیا گیا ہے۔ تو وہ (نماز ہی میں) کعبے کی طرف مڑ گئے۔
تشریح : (۱)انصار کے اس قبیلے کا نام بنوحارثہ تھا۔ (۲)انصار کا نماز ہی میں بیت اللہ کی طرف رخ کرنا تمام نمازیوں کے لیے کچھ نہ کچھ حرکات کاباعث بنا کیونکہ بیت اللہ، بیت المقدس سے بالکل مخالف جانب ہے۔ ظاہر ہے امام کو صفیں چیر کر دوسری جانب آنا پڑا اور مقتدیوں کوبھی صفیں بدلنی پڑیں۔ معلوم ہوا کہ نماز کی اصلاح کے لیے جو بھی حرکت کرنی پڑے، وہ نماز کے فساد کا موجب نہیں، قلیل ہو یا کثیر۔ (۳)ثابت ہوا کہ خبرواحد حجت ہے۔(۴)کسی حکم کے علم سے قبل اس حکم کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ تبدیلی قبلہ کا حکم تو اس قبیلے کے نماز شروع کرنے سے قبل آچکا تھا مگر چونکہ ان کو علم نماز کے دوران میں ہوا، لہٰذا پہلے سے پڑھی ہوئی نماز جو دوسرے قبلے کی طرف تھی، فاسد نہیں ہوئی۔ (۵)یہ بات اختلافی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنا وحی سے تھا یا اہل کتاب سے موافقت کی بنا پر۔ (۱)انصار کے اس قبیلے کا نام بنوحارثہ تھا۔ (۲)انصار کا نماز ہی میں بیت اللہ کی طرف رخ کرنا تمام نمازیوں کے لیے کچھ نہ کچھ حرکات کاباعث بنا کیونکہ بیت اللہ، بیت المقدس سے بالکل مخالف جانب ہے۔ ظاہر ہے امام کو صفیں چیر کر دوسری جانب آنا پڑا اور مقتدیوں کوبھی صفیں بدلنی پڑیں۔ معلوم ہوا کہ نماز کی اصلاح کے لیے جو بھی حرکت کرنی پڑے، وہ نماز کے فساد کا موجب نہیں، قلیل ہو یا کثیر۔ (۳)ثابت ہوا کہ خبرواحد حجت ہے۔(۴)کسی حکم کے علم سے قبل اس حکم کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ تبدیلی قبلہ کا حکم تو اس قبیلے کے نماز شروع کرنے سے قبل آچکا تھا مگر چونکہ ان کو علم نماز کے دوران میں ہوا، لہٰذا پہلے سے پڑھی ہوئی نماز جو دوسرے قبلے کی طرف تھی، فاسد نہیں ہوئی۔ (۵)یہ بات اختلافی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنا وحی سے تھا یا اہل کتاب سے موافقت کی بنا پر۔