كِتَابُ الصَّلَاةِ بَاب فَرْضِ الْقِبْلَةِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا شَكَّ سُفْيَانُ وَصُرِفَ إِلَى الْقِبْلَةِ
کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل
قبلہ کب مقررہوا؟
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے منقول ہے، انھوں نے فرمایا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیت المقدس کی طرف (منہ کرکے) سولہ (۱۶) یا سترہ(۱۷) مہینے نمازپڑھی، پھر آپ کو موجودہ قبلے (بیت اللہ) کی طرف پھیر دیا گیا۔
تشریح :
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما انصاری صحابی ہیں۔ ظاہر ہے انھوں نے ہجرت تک کے بعد ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازیں پڑھیں۔ تو حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ ہجرت سے سولہ سترہ ماہ بعد تک قبلہ بیت القدس ہی رہا۔ ۱۵رجب یا شعبان ۲ہجری میں بیت اللہ کو قبلہ مقرر کیا گیا۔ قبلے سے متعلق تفصیلی احکام و مسائل کے لیے کتاب القبلۃ کا ابتدائی ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما انصاری صحابی ہیں۔ ظاہر ہے انھوں نے ہجرت تک کے بعد ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازیں پڑھیں۔ تو حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ ہجرت سے سولہ سترہ ماہ بعد تک قبلہ بیت القدس ہی رہا۔ ۱۵رجب یا شعبان ۲ہجری میں بیت اللہ کو قبلہ مقرر کیا گیا۔ قبلے سے متعلق تفصیلی احکام و مسائل کے لیے کتاب القبلۃ کا ابتدائی ملاحظہ فرمائیں۔