سنن النسائي - حدیث 4886

كِتَابُ قَطْعِ السَّارِقِ مَا يَكُونُ حِرْزًا وَمَا لَا يَكُونُ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هِشَامٍ يَعْنِي ابْنَ أَبِي خِيَرَةَ قَالَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ يَعْنِي ابْنَ الْعَلَاءِ الْكُوفِيَّ قَالَ حَدَّثَنَا أَشْعَثُ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ صَفْوَانُ نَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ وَرِدَاؤُهُ تَحْتَهُ فَسُرِقَ فَقَامَ وَقَدْ ذَهَبَ الرَّجُلُ فَأَدْرَكَهُ فَأَخَذَهُ فَجَاءَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِقَطْعِهِ قَالَ صَفْوَانُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا بَلَغَ رِدَائِي أَنْ يُقْطَعَ فِيهِ رَجُلٌ قَالَ هَلَّا كَانَ هَذَا قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنَا بِهِ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ أَشْعَثُ ضَعِيفٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4886

کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے کا بیان کون سی چیز محفوظ ہوتی ہے اور کون سی غیر محفوظ؟ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: حضرت صفوان مسجد میں سوئے ہوئے تھے جبکہ ان کی چادر ان کے ( سرکے) نیچے تھی ۔ وہ چرا لی گئی ۔ ان کو جاگ آئی تو چور جاچکا تھا ۔ انہوں نے بھاگ کر اسے پکڑ لیا اور نبی اکرمﷺ کے پاس لے آئے۔ آپ نے چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا ۔ صفوان نے کہا : اے اللہ کے رسول ! میری چادر اتنی قیمتی تو نہیں کہ اس کی بنا پر کسی آدمی کا ہاتھ کاٹ دیا جائے ؟ آپ نے فرمایا :’’ یہ بات اس کو میرے پاس لانے سے پہلے کیوں نہ سوچی ۔‘‘ ابو عبدالرحمن ( امام نسائی رحمہ اللہ) نے فرمایا : ( اس روایت کا راوی) اشعث ضعیف ہے ۔ ( مقصد یہ ہے کہ حضرت ابن عباس کا ذکر اس روایت میں صحیح نہیں)
تشریح : ’’ اتنی قیمتی‘‘ قیمتی تو تھی یعنی چوری کے نصاب کو پہنچ جاتی تھی اسی لیے تو رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا مگر ان کا خیال تھا کہ ہاتھ تو بہت قیمتی ہے ۔ اس کی دیت پچاس اونٹ ہے ۔ اسے تیس درہم کی چوری کے عوض نہیں کاٹنا چاہیے ۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ ہاتھ اس وقت قیمتی ہے جب بے گناہ ہو ۔ جب اس سے چوری جیسا گناہ کرلیا گیا تو اب یہ قیمتی نہ رہا ۔ اب یہ چند درہم کے بدلے کاٹ دیا جائے گا ۔ چوری کس قدر ذلیل کام ہے کہ پچاس اونٹ کی قیمت رکھنے والی چیز کو تین یا زیادہ سے زیادہ دس درہم کی بنا دیا۔ ’’ اتنی قیمتی‘‘ قیمتی تو تھی یعنی چوری کے نصاب کو پہنچ جاتی تھی اسی لیے تو رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا مگر ان کا خیال تھا کہ ہاتھ تو بہت قیمتی ہے ۔ اس کی دیت پچاس اونٹ ہے ۔ اسے تیس درہم کی چوری کے عوض نہیں کاٹنا چاہیے ۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ ہاتھ اس وقت قیمتی ہے جب بے گناہ ہو ۔ جب اس سے چوری جیسا گناہ کرلیا گیا تو اب یہ قیمتی نہ رہا ۔ اب یہ چند درہم کے بدلے کاٹ دیا جائے گا ۔ چوری کس قدر ذلیل کام ہے کہ پچاس اونٹ کی قیمت رکھنے والی چیز کو تین یا زیادہ سے زیادہ دس درہم کی بنا دیا۔