سنن النسائي - حدیث 4882

كِتَابُ قَطْعِ السَّارِقِ الرَّجُلُ يَتَجَاوَزُ لِلسَّارِقِ عَنْ سَرِقَتِهِ بَعْدَ أَنْ يَأْتِيَ بِهِ الْإِمَامُ وَذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى عَطَاءٍ فِي حَدِيثِ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ فِيهِ صحيح أَخْبَرَنَا هِلَالُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ أَنَّ رَجُلًا سَرَقَ بُرْدَةً لَهُ فَرَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِقَطْعِهِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ تَجَاوَزْتُ عَنْهُ فَقَالَ أَبَا وَهْبٍ أَفَلَا كَانَ قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنَا بِهِ فَقَطَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4882

کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے کا بیان حاکم کے سامنے مقدمہ پیش کرنے کے بعد متعلقہ شخص کا چور کو چوری معاف کرنا اور صفوان بن امیہ کی حدیث میں عطاء پر اختلاف کا بیان حضرت صفوان بن امیہ ؓسے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ان کی چادر چرالی ۔ وہ اسے ( چور کو ) نبی کریم ﷺ کے پاس لے آئے تو آپ نے اس کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دیا ۔ انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول! میں نے اس کو معاف کردیا ۔ آپ نے فرمایا : ’’ ابووہب ! ( معاف ہی کرنا تھا تو ) ہمارے پاس لانے سے پہلے کیوں معاف نہ کردیا ؟‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔
تشریح : 1۔قابل حد مسئلہ جب حاکم کے سامنے پیش کردیا جائے تو پھر اس کی معافی نہیں ہو سکتی ۔ ہاں البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ حاکم کے پاس لانے سے پہلے معاف کردیا جائے ، تاہم شریعت نے جس چیز کو مستثنیٰ قرار دیا ہے اس میں حاکم کے پاس لانے کے بعد بھی معافی ہوسکتی ہے جیسے مقتول کے ورثاء قاتل کو بعد میں بھی معاف کرسکتے ہیں ۔ 2۔ اسلامی اور شرعی سزائیں وحشیانہ قطعا نہیں بلکہ یہ تو قابل رشک معاشرے کی تشکیل کے لیے ناگزیر اور حیات بخش ہیں ۔ شروعی سزاؤں کے نفاذ سے نہ صرف برائیوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے بلکہ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جاتا ہے ۔ 3۔ ’’ کاٹ دیا‘‘ یعنی کاٹنے کا حکم دے دیا۔ 1۔قابل حد مسئلہ جب حاکم کے سامنے پیش کردیا جائے تو پھر اس کی معافی نہیں ہو سکتی ۔ ہاں البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ حاکم کے پاس لانے سے پہلے معاف کردیا جائے ، تاہم شریعت نے جس چیز کو مستثنیٰ قرار دیا ہے اس میں حاکم کے پاس لانے کے بعد بھی معافی ہوسکتی ہے جیسے مقتول کے ورثاء قاتل کو بعد میں بھی معاف کرسکتے ہیں ۔ 2۔ اسلامی اور شرعی سزائیں وحشیانہ قطعا نہیں بلکہ یہ تو قابل رشک معاشرے کی تشکیل کے لیے ناگزیر اور حیات بخش ہیں ۔ شروعی سزاؤں کے نفاذ سے نہ صرف برائیوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے بلکہ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جاتا ہے ۔ 3۔ ’’ کاٹ دیا‘‘ یعنی کاٹنے کا حکم دے دیا۔