سنن النسائي - حدیث 4878

كِتَابُ قَطْعِ السَّارِقِ بَاب امْتِحَانِ السَّارِقِ بِالضَّرْبِ وَالْحَبْسِ حسن أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ قَالَ حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ حَدَّثَنِي أَزْهَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَرَازِيُّ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَنَّهُ رَفَعَ إِلَيْهِ نَفَرٌ مِنْ الْكَلَاعِيِّينَ أَنَّ حَاكَةً سَرَقُوا مَتَاعًا فَحَبَسَهُمْ أَيَّامًا ثُمَّ خَلَّى سَبِيلَهُمْ فَأَتَوْهُ فَقَالُوا خَلَّيْتَ سَبِيلَ هَؤُلَاءِ بِلَا امْتِحَانٍ وَلَا ضَرْبٍ فَقَالَ النُّعْمَانُ مَا شِئْتُمْ إِنْ شِئْتُمْ أَضْرِبْهُمْ فَإِنْ أَخْرَجَ اللَّهُ مَتَاعَكُمْ فَذَاكَ وَإِلَّا أَخَذْتُ مِنْ ظُهُورِكُمْ مِثْلَهُ قَالُوا هَذَا حُكْمُكَ قَالَ هَذَا حُكْمُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4878

کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے کا بیان مار پیٹ کر اور قید کر کے چور کی تفتیش کرنا حضرت نعمان بن بشرؓ سے مروی ہے کہ بنو کلاع کے کچھ لوگوں نے ان کے پاس مقدمہ پیش کیا کہ کپڑا بنانے والے کچھ لوگوں نے ہمارا سامان چرا لیا ہے ۔ انہوں نے ان کو چند دن قید میں رکھا ، پھر چھوڑ دیا ۔ مقدمہ پیش کرنے والے آئے اور کہا : آپ نے ان کو بغیر کسی مارپیٹ اور تحقیق و تفتیش ( چھان بین) کے چھوڑ دیا ہے ؟ حضرت نعمان نے فرمایا : تم کیا چاہتے ہو ؟ اگر تم چاہو تو میں ان کو مار پیٹ کرتا ہوں ۔ اگر تمہارا سامان ان سے برآمد ہو گیا تو بہتر ورنہ میں تمہاری پیٹھ پر بھی اتنی ہی مار پیٹ کروں گا ۔ انہوں نے کہا : یہ آپ کا فیصلہ ہے ؟ انہوں نے فرمایا : یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے اس کے رسول مکرم ﷺ کا فیصلہ ہے۔
تشریح : 1۔ محقق کتاب کا اس روایت کی سند کو ضعیف کہنا درست نہیں ۔ ان کے نزدیک وجہ ضعف یہ ہے کہ ازہر بن عبداللہ کے حضرت نعمان بن بشیر سے سماع میں نظر ہے لیکن انہوں نے اس نظر کی کوئی دلیل ذکر نہیں کی اور اصولی بات یہ ہے کہ جب ثقہ یا صدوق راوی ’’ عن‘‘ سے بیان کرے اور وہ متہم بالتدلیس بھی نہ ہو تو اس کی روایت سماع پر محمول ہو گی ۔ اور ازہر کو کسی نے مدلس نہیں کہا ۔ شاید اسی لیے شیخ البانی اور دیگر محققین نے اس روایت کو حسن کہا ہے ۔ 2۔ اس باب میں چور سے مراد وہ شخص ہے جس پر چوری کا الزام ہو مگر کوئی گواہ نہ ہو اور نہ مال مسروقہ اس سے برآمد ہوا ہو ۔ ایسے شخص کو جس پر چور ہونے کے قرائن ہوں تحقیق کی غرض سے قید کیا جاسکتا ہے ۔ اگر وہ تسلیم کر لے یا اس سے مال مسروقہ برآمد ہو جائے تو اس کو چوری کی سزا لازم ہے ۔ اگر کچھ بھی ثابت نہ ہو تو اسے چھوڑ دیا جائے گا جیسا کہ حضرت نعمان بن بشر﷜ کے طرز عمل سے ثابت ہوتا ہے نیز اسے مارنے کی اجازت نہیں ہوگی کیونکہ مارپیٹ سے تو کسی بھی بے گناہ سے اعتراف کروایا جاسکتا ہے ۔ کسی بے گناہ یا مشکوک شخص کو مارنا ظلم ہے ۔ ہاں البتہ یہ درست ہے کہ دانائی اور حکمت سے سچ اگلوایا جائے یا دھمیکوں وغیرہ سے مرعوب کر کے حقیقت معلوم کی جائے۔ 1۔ محقق کتاب کا اس روایت کی سند کو ضعیف کہنا درست نہیں ۔ ان کے نزدیک وجہ ضعف یہ ہے کہ ازہر بن عبداللہ کے حضرت نعمان بن بشیر سے سماع میں نظر ہے لیکن انہوں نے اس نظر کی کوئی دلیل ذکر نہیں کی اور اصولی بات یہ ہے کہ جب ثقہ یا صدوق راوی ’’ عن‘‘ سے بیان کرے اور وہ متہم بالتدلیس بھی نہ ہو تو اس کی روایت سماع پر محمول ہو گی ۔ اور ازہر کو کسی نے مدلس نہیں کہا ۔ شاید اسی لیے شیخ البانی اور دیگر محققین نے اس روایت کو حسن کہا ہے ۔ 2۔ اس باب میں چور سے مراد وہ شخص ہے جس پر چوری کا الزام ہو مگر کوئی گواہ نہ ہو اور نہ مال مسروقہ اس سے برآمد ہوا ہو ۔ ایسے شخص کو جس پر چور ہونے کے قرائن ہوں تحقیق کی غرض سے قید کیا جاسکتا ہے ۔ اگر وہ تسلیم کر لے یا اس سے مال مسروقہ برآمد ہو جائے تو اس کو چوری کی سزا لازم ہے ۔ اگر کچھ بھی ثابت نہ ہو تو اسے چھوڑ دیا جائے گا جیسا کہ حضرت نعمان بن بشر﷜ کے طرز عمل سے ثابت ہوتا ہے نیز اسے مارنے کی اجازت نہیں ہوگی کیونکہ مارپیٹ سے تو کسی بھی بے گناہ سے اعتراف کروایا جاسکتا ہے ۔ کسی بے گناہ یا مشکوک شخص کو مارنا ظلم ہے ۔ ہاں البتہ یہ درست ہے کہ دانائی اور حکمت سے سچ اگلوایا جائے یا دھمیکوں وغیرہ سے مرعوب کر کے حقیقت معلوم کی جائے۔