سنن النسائي - حدیث 4877

كِتَابُ قَطْعِ السَّارِقِ تَعْظِيمُ السَّرِقَةِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ الْمُخَرَّمِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ح وَأَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ اللَّهُ السَّارِقَ يَسْرِقُ الْبَيْضَةَ فَتُقْطَعُ يَدُهُ وَيَسْرِقُ الْحَبْلَ فَتُقْطَعُ يَدُهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4877

کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے کا بیان چوری بہت بڑا گنا ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ چور پر لعنت کرے وہ انڈا چرلیتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے ۔ رسی چرا لیتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے ۔‘‘
تشریح : 1۔ ’’لعنت کرے ‘‘ کہ وہ معمولی چیزوں کے بدلے اپنے قیمتی ہاتھ جس کا کوئی بدل نہیں کٹوا بیٹھتا ہے ۔ دنیا میں اس سے بڑا نقصان کیا ہوگا؟ ہاتھ سے محرومی ، زندگی بھر کی معذوری ، بدنامی اور رسوائی جو مرتے دم تک جدا نہ ہوگی اور ان سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور ایمان سے محرومی ۔ اور لعنت کیا ہوتی ہے ؟ کسی شخص کا نام لے کر اس پر لعنت ڈالنا جائز نہیں ، خواہ وہ کافر ہی ہو الا یہ کہ وہ کفر پر مرے یا اس کا کفر قطعی ہو۔ البتہ کسی کبیرہ گناہ کا ذکر کر کے اس کے فاعل پر ( بغیر کسی کا نام لیے یا کسی کو معین کیے ) لعنت ڈالی جا سکتی ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے ۔ لعنت سب سے بڑی بددعا ہے ۔ مراد اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محرومی ہے ، اسی لیے یہ کسی مومن کے بارے میں تو ہو ہی نہیں سکتی۔ کافر بھی ممکن ہے کسی وقت مسلمان ہو جائے ، لہذا اس کے لیے بھی مناسب نہیں ۔ 2۔ ’’ انڈا، رسی‘‘ کلام میں زور پیدا کرنے کے لیے فرمایا ۔ مراد معمولی چیز ہے ۔ ظاہر ہے دینا کا مال کتنا بھی قیمتی ہو انسانی ہاتھ اور انسانی شرف کے مقابلے میں معمولی ہی ہے ورنہ انڈا ، رسی پر ہاتھ نہیں کاٹا جاسکتا بلکہ ہاتھ کاٹنے کے لیے چوری کی ایک حد مقرر کی گئی ہے جس کی تفصیل آئندہ آئے گی ۔ ان شاء اللہ بعض حضرات نے بیضہ کے معنی خود کیے ہیں جو لڑائی کے وقت سر پر پہنا جاتا ہے ۔ وہ قیمتی ہوتا ہے ۔ اس پر ہاتھ کاٹا جاسکتا ہے اور رسی سے مراد کشتی کے رسے لیے ہیں جو بہت موٹے ہوتے ہیں ۔ قیمت بھی بہت ہوتی ہے معنی تو یہ بھی بن سکتے ہیں مگر اس سے کلام کی بلاغت ختم ہو جاتی ہے ۔ کلام کا مقصد تو چوری کی مذمت ہے نہ کہ ہاتھ کاٹنے کی تفصیل بیان کرنا ۔ واللہ اعلم 1۔ ’’لعنت کرے ‘‘ کہ وہ معمولی چیزوں کے بدلے اپنے قیمتی ہاتھ جس کا کوئی بدل نہیں کٹوا بیٹھتا ہے ۔ دنیا میں اس سے بڑا نقصان کیا ہوگا؟ ہاتھ سے محرومی ، زندگی بھر کی معذوری ، بدنامی اور رسوائی جو مرتے دم تک جدا نہ ہوگی اور ان سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور ایمان سے محرومی ۔ اور لعنت کیا ہوتی ہے ؟ کسی شخص کا نام لے کر اس پر لعنت ڈالنا جائز نہیں ، خواہ وہ کافر ہی ہو الا یہ کہ وہ کفر پر مرے یا اس کا کفر قطعی ہو۔ البتہ کسی کبیرہ گناہ کا ذکر کر کے اس کے فاعل پر ( بغیر کسی کا نام لیے یا کسی کو معین کیے ) لعنت ڈالی جا سکتی ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے ۔ لعنت سب سے بڑی بددعا ہے ۔ مراد اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محرومی ہے ، اسی لیے یہ کسی مومن کے بارے میں تو ہو ہی نہیں سکتی۔ کافر بھی ممکن ہے کسی وقت مسلمان ہو جائے ، لہذا اس کے لیے بھی مناسب نہیں ۔ 2۔ ’’ انڈا، رسی‘‘ کلام میں زور پیدا کرنے کے لیے فرمایا ۔ مراد معمولی چیز ہے ۔ ظاہر ہے دینا کا مال کتنا بھی قیمتی ہو انسانی ہاتھ اور انسانی شرف کے مقابلے میں معمولی ہی ہے ورنہ انڈا ، رسی پر ہاتھ نہیں کاٹا جاسکتا بلکہ ہاتھ کاٹنے کے لیے چوری کی ایک حد مقرر کی گئی ہے جس کی تفصیل آئندہ آئے گی ۔ ان شاء اللہ بعض حضرات نے بیضہ کے معنی خود کیے ہیں جو لڑائی کے وقت سر پر پہنا جاتا ہے ۔ وہ قیمتی ہوتا ہے ۔ اس پر ہاتھ کاٹا جاسکتا ہے اور رسی سے مراد کشتی کے رسے لیے ہیں جو بہت موٹے ہوتے ہیں ۔ قیمت بھی بہت ہوتی ہے معنی تو یہ بھی بن سکتے ہیں مگر اس سے کلام کی بلاغت ختم ہو جاتی ہے ۔ کلام کا مقصد تو چوری کی مذمت ہے نہ کہ ہاتھ کاٹنے کی تفصیل بیان کرنا ۔ واللہ اعلم