سنن النسائي - حدیث 4873

كِتَابُ الْقَسَامَةِ مَا جَاءَ فِي كِتَابِ الْقِصَاصِ مِنَ الْمُجْتَبِي مِمَّا لَيْسَ فِي السُّنَنِ تَأْوِيلُ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا صحيح أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَّامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَقُ الْأَزْرَقُ، عَنْ الْفُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَزْنِي الْعَبْدُ حِينَ يَزْنِي، وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُهَا، وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَقْتُلُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4873

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل قصاص سے متعلقہ روایات جو صرف مجتبیٰ نسائی میں ہیں، سنن کبریٰ میں نہیں، نیز اللہ تعالیٰ کے فرمان: ’’جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی سزا جہنم ہے۔ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔‘‘ کا بیان حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’۔جب کوئی بندہ زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔ جب کوئی شراب پیتا ہے تو شراب پیتے وقت مومن نہیں رہتا۔ جب کوئی چوری کرتا ہے تو مومن نہیں رہتا اور قتل کرتا ہے تو بھی مومن نہیں رہتا۔‘‘
تشریح : (۱) یہ حدیث مبارکہ زنا اور بدکاری کی حرمت پر صریح دلالت کرتی ہے، نیز ان امور کی حرمت پر بھی دلالت کرتی ہے جو ایمان کے منافی ہیں اور یہ اس لیے کہ زنا فواحش میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: {وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً} (بنی اسرائیل: ۳۲) (۲) اس حدیث مبارکہ سے شراب کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ شراب خبائث کی جڑ ہے۔ یہ رذیل اور گھٹیا حرکات پر ابھارتی ہے، نیز چوری اور قابل احترام جان کو قتل کرنے کی حرمت بھی واضح ہوتی ہے۔ (۳) ’’مومن نہیں رہتا‘‘ مقصد یہ ہے کہ یہ کام ایمان کے منافی ہیں۔ ایمان ان سے روکتا ہے۔ تو جو شخص یہ کام کرتا ہے، وہ ایمان کے تقاضے پر عمل نہیں کرتا۔ گویا۔ مومن نہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ کافر بن جاتا ہے کیونکہ اہل سنت کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی گناہ، خواہ وہ کبیرہ ہی ہو، کے ارتکاب سے مسلمان کافر نہیں بنتا۔ اور یہ اصول بہت سی آیات واحادیث سے قطعاً ثابت ہے، مثلاً: رسول اللہﷺ نے فرمایا: [مَنْ ماَتَ وَھُوَ یَعْلَمُ اِنَّہُ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ] ’’جو شخص اس حالت میں مرا کہ اسے لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کا علم (اس پر یقین) ہے تو وہ جنت میں داخل ہو چکا۔‘‘ (صحیح مسلم، الایمان، باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعا، حدیث: ۲۶) اسی طرح رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا: [مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ: لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ، ثُمَّ مَاتَ عَلٰی ذٰلِکَ اِلَّا دَاخَلَ الْجَنَّۃَ]’’جو بندہ کہہ دے: لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ پھر اسی (عقیدے) پر مر جائے تو وہ جنت میں داخل ہوگیا۔‘‘ (صحیح البخاری، اللباس، باب الثیاب البیض، حدیث: ۸۵۲۷) یہ اور اس جیسی دوسری بہت سی احادیث میں صراحت کے ساتھ یہ مذکور ہے کہ جو شخص لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ یعنی کلمہ اخلاص وتوحید کی شہادت پر فوت ہو جائے اس پر جنت واجب ہو جاتی ہے۔ اللہ چاہے تو اپنی مشیت کے تحت اسے معاف فرما کر ابتداء ً جنت میں داخل فرما دے اور اگر چاہے تو کچھ مواخذے اور سزا کے بعد جنت میں داخل فرمائے۔ ایسا شخص ابدی جہنمی قطعاً نہیں جیسا کہ کافر و مشرک ہمیشہ ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ۔ یا اس حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ جب وہ یہ کام کر رہا ہوتا ہے، اس وقت مومن نہیں ہرتا۔ جب وہ باز آتا ہے، پھر ایمان لوٹ آتا ہے۔ یہ مطلب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی حدیث سے منقول ہے۔ گویا وقتی طور پر مومن نہیں رہتا۔ یا وہ عذاب سے امن میں نہیں رہتا یا مقصود یہ ہے کہ مومن کو یہ کام نہیں کرنے چاہئیں۔ گویا مقصد نہی ہے۔ (۵) ان تین روایات ۴۸۷۱ تا ۴۸۷۳ میں چونکہ قتل کو کبیرہ گناہوں میں ذکر کیا گیا ہے اور قصاص بھی قتل میں ہی ہوتا ہے، لہٰذا یہ احادیث کتاب القصاص میں آسکتی ہیں۔ (۶) قتل کا گناہ قصاص ہی سے معاف ہو سکتا ہے۔ ورثائے مقتول کی معافی سے قتل کا گناہ معاف نہیں ہوتا۔ صرف یہ ہے کہ دنیا میں قتل سے بچ جائے گا۔ آخرت میں قتل کی سزا بھگتنا ہوگی۔ الا یہ کہ مقتول کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے راضی فرما دے اور وہ آخرت میں معاف کر دے۔ وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیزٍ۔ (۱) یہ حدیث مبارکہ زنا اور بدکاری کی حرمت پر صریح دلالت کرتی ہے، نیز ان امور کی حرمت پر بھی دلالت کرتی ہے جو ایمان کے منافی ہیں اور یہ اس لیے کہ زنا فواحش میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: {وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً} (بنی اسرائیل: ۳۲) (۲) اس حدیث مبارکہ سے شراب کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ شراب خبائث کی جڑ ہے۔ یہ رذیل اور گھٹیا حرکات پر ابھارتی ہے، نیز چوری اور قابل احترام جان کو قتل کرنے کی حرمت بھی واضح ہوتی ہے۔ (۳) ’’مومن نہیں رہتا‘‘ مقصد یہ ہے کہ یہ کام ایمان کے منافی ہیں۔ ایمان ان سے روکتا ہے۔ تو جو شخص یہ کام کرتا ہے، وہ ایمان کے تقاضے پر عمل نہیں کرتا۔ گویا۔ مومن نہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ کافر بن جاتا ہے کیونکہ اہل سنت کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی گناہ، خواہ وہ کبیرہ ہی ہو، کے ارتکاب سے مسلمان کافر نہیں بنتا۔ اور یہ اصول بہت سی آیات واحادیث سے قطعاً ثابت ہے، مثلاً: رسول اللہﷺ نے فرمایا: [مَنْ ماَتَ وَھُوَ یَعْلَمُ اِنَّہُ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ] ’’جو شخص اس حالت میں مرا کہ اسے لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کا علم (اس پر یقین) ہے تو وہ جنت میں داخل ہو چکا۔‘‘ (صحیح مسلم، الایمان، باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعا، حدیث: ۲۶) اسی طرح رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا: [مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ: لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ، ثُمَّ مَاتَ عَلٰی ذٰلِکَ اِلَّا دَاخَلَ الْجَنَّۃَ]’’جو بندہ کہہ دے: لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ پھر اسی (عقیدے) پر مر جائے تو وہ جنت میں داخل ہوگیا۔‘‘ (صحیح البخاری، اللباس، باب الثیاب البیض، حدیث: ۸۵۲۷) یہ اور اس جیسی دوسری بہت سی احادیث میں صراحت کے ساتھ یہ مذکور ہے کہ جو شخص لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ یعنی کلمہ اخلاص وتوحید کی شہادت پر فوت ہو جائے اس پر جنت واجب ہو جاتی ہے۔ اللہ چاہے تو اپنی مشیت کے تحت اسے معاف فرما کر ابتداء ً جنت میں داخل فرما دے اور اگر چاہے تو کچھ مواخذے اور سزا کے بعد جنت میں داخل فرمائے۔ ایسا شخص ابدی جہنمی قطعاً نہیں جیسا کہ کافر و مشرک ہمیشہ ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہُ۔ یا اس حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ جب وہ یہ کام کر رہا ہوتا ہے، اس وقت مومن نہیں ہرتا۔ جب وہ باز آتا ہے، پھر ایمان لوٹ آتا ہے۔ یہ مطلب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی حدیث سے منقول ہے۔ گویا وقتی طور پر مومن نہیں رہتا۔ یا وہ عذاب سے امن میں نہیں رہتا یا مقصود یہ ہے کہ مومن کو یہ کام نہیں کرنے چاہئیں۔ گویا مقصد نہی ہے۔ (۵) ان تین روایات ۴۸۷۱ تا ۴۸۷۳ میں چونکہ قتل کو کبیرہ گناہوں میں ذکر کیا گیا ہے اور قصاص بھی قتل میں ہی ہوتا ہے، لہٰذا یہ احادیث کتاب القصاص میں آسکتی ہیں۔ (۶) قتل کا گناہ قصاص ہی سے معاف ہو سکتا ہے۔ ورثائے مقتول کی معافی سے قتل کا گناہ معاف نہیں ہوتا۔ صرف یہ ہے کہ دنیا میں قتل سے بچ جائے گا۔ آخرت میں قتل کی سزا بھگتنا ہوگی۔ الا یہ کہ مقتول کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے راضی فرما دے اور وہ آخرت میں معاف کر دے۔ وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیزٍ۔