سنن النسائي - حدیث 4869

كِتَابُ الْقَسَامَةِ مَا جَاءَ فِي كِتَابِ الْقِصَاصِ مِنَ الْمُجْتَبِي مِمَّا لَيْسَ فِي السُّنَنِ تَأْوِيلُ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْقَاسِمُ بْنُ أَبِي بَزَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: هَلْ لِمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا مِنْ تَوْبَةٍ؟ قَالَ: «لَا». وَقَرَأْتُ عَلَيْهِ الْآيَةَ الَّتِي فِي الْفُرْقَانِ: {وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ} [الفرقان: 68] قَالَ: هَذِهِ آيَةٌ مَكِّيَّةٌ نَسَخَتْهَا آيَةٌ مَدَنِيَّةٌ {وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ} [النساء: 93]

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4869

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل قصاص سے متعلقہ روایات جو صرف مجتبیٰ نسائی میں ہیں، سنن کبریٰ میں نہیں، نیز اللہ تعالیٰ کے فرمان: ’’جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے، اس کی سزا جہنم ہے۔ وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔‘‘ کا بیان حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دے، کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ انھوں نے فرمایا: نہیں۔ میں نے سورئہ فرقان والی آیت پڑھی: {وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ} ’’اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہیں بناتے اور کسی قابل احترام جان کو ناحق قتل نہیں کرتے۔‘‘ انھوں نے فرمایا: یہ آیت مکی دور میں اتری۔ اس کو مدینہ منورہ میں اتگرنے والی ایک آیت نے منسوخ کر دیا: {وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا} ’’جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر ے ، اس کی سزا جہنم ہے۔‘‘
تشریح : ’’سورہ فرقان والی آیت‘‘ اصل استدلال اگلی آیت سے ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے اور نیک کام شروع کر دے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی برائیاں نیکیوں میں بدل دیتا ہے اور اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ مگر حضرت ابن عباس اسے صرف مشرکین سے خاص سمجھتے ہیں۔ ’’سورہ فرقان والی آیت‘‘ اصل استدلال اگلی آیت سے ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے اور نیک کام شروع کر دے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی برائیاں نیکیوں میں بدل دیتا ہے اور اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ مگر حضرت ابن عباس اسے صرف مشرکین سے خاص سمجھتے ہیں۔