سنن النسائي - حدیث 4856

كِتَابُ الْقَسَامَةِ الْمَوَاضِحُ حسن صحيح أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: لَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ قَالَ فِي خُطْبَتِهِ: «وَفِي الْمَوَاضِحِ خَمْسٌ خَمْسٌ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4856

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل ہڈی کو ننگا کر دینے والے زخموں کی دیت حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہﷺ نے مکہ مکرمہ فتح کیا تو اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: ’’ہڈی کو ننگا کر دینے والے زخموں میں دیت پانچ پانچ اونٹ ہے۔‘‘
تشریح : اگر چمڑا اور گوشت کٹ کر ہڈی نظر آنے لگے لیکن ہڈی کا نقصان نہ ہوا ہو تو اس زخم کو عربی زبان میں موضحہ کہا جاتا ہے۔ یہ زخم معمولی ہوتا ہے اور جلدی ٹھیک ہو جاتا ہے، اس لیے اس کی دیت بھی معمولی، یعنی صرف پانچ اونٹ رکھی گئی ہے۔ اگر اس سے کم زخم ہو تو عدالت کوئی سی دیت جو پانچ اونٹ سے کم ہو، مقرر کر سکتی ہے۔ دیت انسانی عظمت کے پیش نظر رکھی گئی ہے کہ انسان خصوصاً مسلمان کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ اگر اس کو خراش بھی آگئی تب بھی جرمانہ اور تاوان لاگو ہوگا۔ بعض فقہاء نے اس موضحہ میں پانچ اونٹ دیت رکھی ہے جو سر یا چہرے میں ہو۔ باقی جسم میں موضحہ کی دیت عدالت کی صوابدید پر موقوف کی ہے اور کہا ہے کہ وہ پانچ اونٹ سے کم ہوگی کیونکہ چہرہ فضل عضو ہے، اس لیے اس پر مارنا زیادہ جرم ہے۔ لیکن یہ تخصیص کسی حدیث میں نہیں۔ اگر چمڑا اور گوشت کٹ کر ہڈی نظر آنے لگے لیکن ہڈی کا نقصان نہ ہوا ہو تو اس زخم کو عربی زبان میں موضحہ کہا جاتا ہے۔ یہ زخم معمولی ہوتا ہے اور جلدی ٹھیک ہو جاتا ہے، اس لیے اس کی دیت بھی معمولی، یعنی صرف پانچ اونٹ رکھی گئی ہے۔ اگر اس سے کم زخم ہو تو عدالت کوئی سی دیت جو پانچ اونٹ سے کم ہو، مقرر کر سکتی ہے۔ دیت انسانی عظمت کے پیش نظر رکھی گئی ہے کہ انسان خصوصاً مسلمان کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ اگر اس کو خراش بھی آگئی تب بھی جرمانہ اور تاوان لاگو ہوگا۔ بعض فقہاء نے اس موضحہ میں پانچ اونٹ دیت رکھی ہے جو سر یا چہرے میں ہو۔ باقی جسم میں موضحہ کی دیت عدالت کی صوابدید پر موقوف کی ہے اور کہا ہے کہ وہ پانچ اونٹ سے کم ہوگی کیونکہ چہرہ فضل عضو ہے، اس لیے اس پر مارنا زیادہ جرم ہے۔ لیکن یہ تخصیص کسی حدیث میں نہیں۔