سنن النسائي - حدیث 4846

كِتَابُ الْقَسَامَةِ عَقْلُ الْأَسْنَانِ حسن صحيح أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ مَطَرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْأَسْنَانُ سَوَاءٌ خَمْسًا خَمْسًا»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4846

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل دانتوں کی دیت حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’سب دانت (دیت میں) بورابر ہیں۔‘‘ یعنی ہر ایک میں پانچ پانچ اونٹ
تشریح : (۱)کسی بھی عضو کے فائدے کا صحیح تعین بہت مشکل کام ہے کیونکہ ایک عضو کئی کام دیتا ہے، مثلاً سامنے کے دانت کاٹنے کے کام بھی آتے ہیں اور مشکل وقت میں پکڑنے کے بھی۔ اسی طرح وہ چہرے کی زینت بھی ہیں، لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کھانا کھانے میں ڈاڑھوں کا زیادہ حصہ ہے اور دانتوں کا کم، اس لیے ڈاڑھوں کی دیت زیادہ ہونی چاہیے۔ گویا اعضاء کے پورے فائدے کا تعین اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، لہٰذا شریعت نے جو دیت مقرر کر دی ہے، وہی صحیح ہے۔ اس میں بحث نہیں کرنی چاہیے۔ (۲)اگر کوئی شخص کسی کے تمام دانت توڑ دے تو اس کی دیت کتنی ہوگی؟ جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ ہر دانت کی دیت پانچ اونٹ ہوگی اس طرح کہ اگر کوئی شخص بتیس دانت توڑتا ہے تو اسے ایک سو ساٹھ (۱۶۰) اونٹ دیت دینا ہوگی۔ ڈاڑھیں اور دانت اس میں برابر ہیں۔ ان کی دلیل مذکورہ حدیث ہے۔ جبکہ اہل علم کی ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ بارہ دانتوں میں پانچ پانچ اونٹ ہوں گے اور باقی بیس ڈاڑھوں میں ایک ایک اونٹ ہوگا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ باقی ڈاڑھوں میں دو دو اونٹ ہوں گے۔ ان کی دلیل حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ایک فیصلہ ہے کہ انھوں نے ڈاڑھوں میں ایک ایک اونٹ دیت مقرر کی۔ پھر یہ بھی کہ پہلے قول پر عمل کی صورت میں دیت جان کی دیت سے بھی بڑھ جائے گی۔ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فیصلے کا تعلق ہے تو ان سے یہ بھی مروی ہے کہ دانت اور داڑھیں برابر ہیں، اس لیے ان کا وہ فتویٰ قابل عمل ہوگا جو مرفوع حدیث کے مطابق ہے اور پھر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مرفوع حدیث کا علم ہوتا تو وہ بھی ڈاڑھوں میں پانچ پانچ اونٹوں کا فیصلہ فرماتے۔ رہی دوسری بات کہ اس طرح دیت جان کی دیت سے بڑھ جائے گی تو یہ نہ قیاس کے خلاف ہے نہ اصول کے بلکہ اصول کے عین مطابق ہے کہ ڈاڑھوں کو دانتوں پر قیاس کیا جائے، پھر اہل علم کے نزدیک ’’اسنان‘‘ کا اطلاق، اضراس پر بھی ہوتا ہے۔ پھر کئی صورتیں اور بھی ممکن ہیں جن میں دیت جان کی دیت سے بڑھ جاتی ہے، مثلاً: کسی شخص کی آنکھ نکال دی جائے اور دونوں ہاتھ کاٹ دیے۔ جائیں تو دیت جان کی دیت سے بڑھ جائے گی۔ مزید دیکھیے: (الاستذکار، لابن عبدالبر: ۲۵/ ۱۴۶-۱۴۸)ہمارے نزدیک جمہور اہل علم کا موقف ہی راجح ہے۔ واللہ اعلم (۱)کسی بھی عضو کے فائدے کا صحیح تعین بہت مشکل کام ہے کیونکہ ایک عضو کئی کام دیتا ہے، مثلاً سامنے کے دانت کاٹنے کے کام بھی آتے ہیں اور مشکل وقت میں پکڑنے کے بھی۔ اسی طرح وہ چہرے کی زینت بھی ہیں، لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کھانا کھانے میں ڈاڑھوں کا زیادہ حصہ ہے اور دانتوں کا کم، اس لیے ڈاڑھوں کی دیت زیادہ ہونی چاہیے۔ گویا اعضاء کے پورے فائدے کا تعین اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، لہٰذا شریعت نے جو دیت مقرر کر دی ہے، وہی صحیح ہے۔ اس میں بحث نہیں کرنی چاہیے۔ (۲)اگر کوئی شخص کسی کے تمام دانت توڑ دے تو اس کی دیت کتنی ہوگی؟ جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ ہر دانت کی دیت پانچ اونٹ ہوگی اس طرح کہ اگر کوئی شخص بتیس دانت توڑتا ہے تو اسے ایک سو ساٹھ (۱۶۰) اونٹ دیت دینا ہوگی۔ ڈاڑھیں اور دانت اس میں برابر ہیں۔ ان کی دلیل مذکورہ حدیث ہے۔ جبکہ اہل علم کی ایک جماعت اس بات کی قائل ہے کہ بارہ دانتوں میں پانچ پانچ اونٹ ہوں گے اور باقی بیس ڈاڑھوں میں ایک ایک اونٹ ہوگا۔ اور ایک قول یہ ہے کہ باقی ڈاڑھوں میں دو دو اونٹ ہوں گے۔ ان کی دلیل حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ایک فیصلہ ہے کہ انھوں نے ڈاڑھوں میں ایک ایک اونٹ دیت مقرر کی۔ پھر یہ بھی کہ پہلے قول پر عمل کی صورت میں دیت جان کی دیت سے بھی بڑھ جائے گی۔ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فیصلے کا تعلق ہے تو ان سے یہ بھی مروی ہے کہ دانت اور داڑھیں برابر ہیں، اس لیے ان کا وہ فتویٰ قابل عمل ہوگا جو مرفوع حدیث کے مطابق ہے اور پھر حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مرفوع حدیث کا علم ہوتا تو وہ بھی ڈاڑھوں میں پانچ پانچ اونٹوں کا فیصلہ فرماتے۔ رہی دوسری بات کہ اس طرح دیت جان کی دیت سے بڑھ جائے گی تو یہ نہ قیاس کے خلاف ہے نہ اصول کے بلکہ اصول کے عین مطابق ہے کہ ڈاڑھوں کو دانتوں پر قیاس کیا جائے، پھر اہل علم کے نزدیک ’’اسنان‘‘ کا اطلاق، اضراس پر بھی ہوتا ہے۔ پھر کئی صورتیں اور بھی ممکن ہیں جن میں دیت جان کی دیت سے بڑھ جاتی ہے، مثلاً: کسی شخص کی آنکھ نکال دی جائے اور دونوں ہاتھ کاٹ دیے۔ جائیں تو دیت جان کی دیت سے بڑھ جائے گی۔ مزید دیکھیے: (الاستذکار، لابن عبدالبر: ۲۵/ ۱۴۶-۱۴۸)ہمارے نزدیک جمہور اہل علم کا موقف ہی راجح ہے۔ واللہ اعلم