كِتَابُ الْقَسَامَةِ هَلْ يُؤْخَذُ أَحَدٌ بِجَرِيرَةِ غَيْرِهِ صحيح أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ طَارِقٍ الْمُحَارِبِيِّ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَؤُلَاءِ بَنُو ثَعْلَبَةَ الَّذِينَ قَتَلُوا فُلَانًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَخُذْ لَنَا بِثَأْرِنَا، فَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ، وَهُوَ يَقُولُ: «لَا تَجْنِي أُمٌّ عَلَى وَلَدٍ» مَرَّتَيْن
کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل
کیا کسی شخص کو دوسرے کے جرم میں پکڑا جا سکتا ہے؟
حضرت طارق محاربی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ بنو ثعلبہ ہیں جنھوں نے اپنے دور جاہلیت میں فلاں کو قتل کیا تھا۔ ان سے ہمیں قصاص دلوا دیجئے۔ آپ نے اپنے ہاتھ مبارک اٹھائے حتیٰ کہ میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ آپ نے دو دفعہ فرمایا: ’’کسی ماں کا جرم اس کے بیٹے کے گلے نہیں پڑتا۔‘‘
تشریح :
آپ کا مقصد یہ تھا کہ قاتلین اور تھے اور یہ حاضرین اور ہیں، لہٰذا ان سے قصاص نہیں لیا جا سکتا۔ اگرچہ ان کا قبیلہ ایک ہے۔ شریعت میں ہر مجرم اپنے جرم کا خود جواب دہ ہے نہ کہ اس کے رشتہ دار۔
آپ کا مقصد یہ تھا کہ قاتلین اور تھے اور یہ حاضرین اور ہیں، لہٰذا ان سے قصاص نہیں لیا جا سکتا۔ اگرچہ ان کا قبیلہ ایک ہے۔ شریعت میں ہر مجرم اپنے جرم کا خود جواب دہ ہے نہ کہ اس کے رشتہ دار۔