سنن النسائي - حدیث 4836

كِتَابُ الْقَسَامَةِ هَلْ يُؤْخَذُ أَحَدٌ بِجَرِيرَةِ غَيْرِهِ صحيح أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبْجَرَ، عَنْ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ، عَنْ أَبِي رِمْثَةَ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَبِي فَقَالَ: «مَنْ هَذَا مَعَكَ؟» قَالَ: ابْنِي، أَشْهَدُ بِهِ، قَالَ: «أَمَا إِنَّكَ لَا تَجْنِي عَلَيْهِ، وَلَا يَجْنِي عَلَيْكَ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4836

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل کیا کسی شخص کو دوسرے کے جرم میں پکڑا جا سکتا ہے؟ حضرت ابو رمثہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نبی اکرمﷺ کے پاس اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوا۔ آپ نے (میرے والد سے) فرمایا: ’’یہ تیرے ساتھ کون ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں، یہ میرا بیٹا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’خبردار! تیرے جرم کا یہ ذمہ دار نہیں اور تو اس کے جرم کا ذمہ دار نہیں۔‘‘
تشریح : (۱) نبیﷺ اس بات کا ہمیشہ التزام فرماتے کہ موقع محل کی مناسبت سے مسئلہ بیان فرمائیں اور کتاب وسنت کے احکام وضاحت سے بیان کر دیں، نیز نبیﷺ مسئلہ اس انداز سے واضح فرماتے کہ اس میں کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہتا بلکہ ہر شخص بآثانی سمجھ لیتا تھا۔ (۲) یہ حدیث مبارکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر کرتی ہے: {وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی} (الفاطر ۳۵: ۱۸) ’’کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا (قطعاً) کوئی بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ (۳)جاہلیت میں باپ بیٹا تو ایک طرف پورے قبیلے کے افراد کو ایک دوسرے کے جرائم کا ذمہ دار سمجھا جاتا تھا۔ قبیلے کے کسی شخص نے قتل کیا ہوتا تو قبیلے کے کسی بھی شخص کو پکڑ کر قتل کر دیا جاتا اور دعویٰ کیا جاتا کہ ہم نے قصاص لے لیا ہے۔ اسلام نے اس بد رسم کو نہ صرف ختم کیا بلکہ یہ اعلان کیا کہ گناہ گار وہی ہے جس نے جرم کیا۔ سزا بھی اسے ہی دی جا سکتی ہے، کسی اور کو نہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ پھر قتل خطا وشبہ عمد کی دیت رشتہ داروں پر کیوں پڑتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دراصل یہ اس کے ساتھ تعاون ہے کیونکہ قتل خطا کی صورت میں تو قاتل بالکل ہی بے گناہ ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ بے احتیاطی کا مجرم کہا جا سکتا ہے اور شبہ عمد میں مجرم تو ہوتا ہے کہ اس نے لڑائی کی مگر چونکہ قتل کا تو اسے تصور بھی نہیں تھا، لہٰذا وہ اتنا مجرم نہیں ہوتا کہ اس پر سو قیمتی اونٹنیوں کا بوجھ ڈال دیا جائے لیکن چونکہ کسی مسلمان کا خون رائیگاں نہیں جا سکتا، اس لیے دیت اس پر ڈال دی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے رشتہ داروں کو اس سے تعاون کرنے کا قانونی طور پر پابند بنا دیا گیا تاکہ وہ پاؤں نہ کھینچ سکیں۔ البتہ جب قاتل مکمل قصور وار ہو، مثلاً: قتل عمد میں تو اسے خود ہی قصاص دینا ہوگا۔ اس کے کسی بھائی یا باپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ دیت ہو تو وہ بھی خود ہی بھرے گا۔ (۱) نبیﷺ اس بات کا ہمیشہ التزام فرماتے کہ موقع محل کی مناسبت سے مسئلہ بیان فرمائیں اور کتاب وسنت کے احکام وضاحت سے بیان کر دیں، نیز نبیﷺ مسئلہ اس انداز سے واضح فرماتے کہ اس میں کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہتا بلکہ ہر شخص بآثانی سمجھ لیتا تھا۔ (۲) یہ حدیث مبارکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر کرتی ہے: {وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی} (الفاطر ۳۵: ۱۸) ’’کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا (قطعاً) کوئی بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ (۳)جاہلیت میں باپ بیٹا تو ایک طرف پورے قبیلے کے افراد کو ایک دوسرے کے جرائم کا ذمہ دار سمجھا جاتا تھا۔ قبیلے کے کسی شخص نے قتل کیا ہوتا تو قبیلے کے کسی بھی شخص کو پکڑ کر قتل کر دیا جاتا اور دعویٰ کیا جاتا کہ ہم نے قصاص لے لیا ہے۔ اسلام نے اس بد رسم کو نہ صرف ختم کیا بلکہ یہ اعلان کیا کہ گناہ گار وہی ہے جس نے جرم کیا۔ سزا بھی اسے ہی دی جا سکتی ہے، کسی اور کو نہیں۔ باقی رہی یہ بات کہ پھر قتل خطا وشبہ عمد کی دیت رشتہ داروں پر کیوں پڑتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دراصل یہ اس کے ساتھ تعاون ہے کیونکہ قتل خطا کی صورت میں تو قاتل بالکل ہی بے گناہ ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ بے احتیاطی کا مجرم کہا جا سکتا ہے اور شبہ عمد میں مجرم تو ہوتا ہے کہ اس نے لڑائی کی مگر چونکہ قتل کا تو اسے تصور بھی نہیں تھا، لہٰذا وہ اتنا مجرم نہیں ہوتا کہ اس پر سو قیمتی اونٹنیوں کا بوجھ ڈال دیا جائے لیکن چونکہ کسی مسلمان کا خون رائیگاں نہیں جا سکتا، اس لیے دیت اس پر ڈال دی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے رشتہ داروں کو اس سے تعاون کرنے کا قانونی طور پر پابند بنا دیا گیا تاکہ وہ پاؤں نہ کھینچ سکیں۔ البتہ جب قاتل مکمل قصور وار ہو، مثلاً: قتل عمد میں تو اسے خود ہی قصاص دینا ہوگا۔ اس کے کسی بھائی یا باپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ دیت ہو تو وہ بھی خود ہی بھرے گا۔