سنن النسائي - حدیث 4834

كِتَابُ الْقَسَامَةِ صِفَةُ شِبْهِ الْعَمْدِ وَعَلَى مَنْ دِيَةُ الْأَجِنَّةِ، وَشِبْهُ الْعَمْدِ، وَذِكْرُ اخْتِلَافِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ نُضَيْلَةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ حسن أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُصَفَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ تَطَبَّبَ وَلَمْ يُعْلَمْ مِنْهُ طِبٌّ قَبْلَ ذَلِكَ فَهُوَ ضَامِنٌ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4834

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل قتل شبہ عمد کا بیان اور اس کا کہ پیٹ کے بچے اور قتل شبہ عمد کی دیت کس کے ذمے ہوگی؟ نیز ابراہیم عن عبید بن نضیہ کے حضرت مغیرہ سے مروی روایت پر راویوں کے اختلافِ الفاظ کا ذکر حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص ایسے ہی (تکلفاً) طبیب بن کر علاج کرے، حالانکہ (اس سے قبل) وہ مستند طبیب نہیں تھا تو (اگر کوئی نقصان ہو جائے) وہ ضامن (ذمہ دار) ہوگا۔‘‘
تشریح : (۱) محقق کتاب نے اس روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے لیکن دیگر محققین نے شواہد کی بنا پر اسے حسن قرار دیا ہے۔ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ مذکورہ حدیث پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں: [لکن الحدیث حسن بمجموع الطریقین] یعنی دونوں طریق کی وجہ سے مجموعی طور پر مذکورہ حدیث حسن بن جاتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، حدیث: ۶۳۵) (۲) موجودہ دور میں عطائی قسم کے ڈاکٹر اور طبیب عام ہیں۔ ان طبیبوں اور ڈاکٹروں کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ حکومت وقت کی یہ شرعی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی قانون سازی کرے کہ کوئی اناڑی ڈاکٹر اور طبیب لوگوں کی زندگی اور ان کی صحت سے نہ کھیل سکے۔ عوام کو ایسے لوگوں کی دست برد سے بچنے کی خود بھی کوشش کرنی چاہیے۔ ایسے ڈاکٹروں اور طبیبوں کے ہاتھوں اگر کوئی مر جائے تو ان کے ذمے دیت ہوگی، تاہم مستند معالجین سے دوا لینا شرعاً جائز بلکہ مستحب ہے۔ اس حدیث مبارکہ سے علاج معالجے اور دوا کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے بشرطیکہ ڈاکٹر وطبیب مستند اور معروف ہو۔ (۳) اگر کوئی آدمی کسی ڈاکٹر یا طبیب کی بے پروائی یا عدم مہارت کی وجہ سے مر جائے تو اس پر دیت ہوگی جو اس کے نسبی رشتہ دار ادا کریں گے۔ قصاص نہیں ہوگا کیونکہ وہ مکمل طور پر قصور وار نہیں۔ آخر علاج کروانے والے کی رضا مندی ہی سے اس کا علاج ہوا، لہٰذا اناڑی شخص سے علاج کروانے میں متعلقہ شخص بھی مجرم ہے۔ طبیب اکیلا مجرم نہیں۔ (۴) مستند طبیب سے کوئی نقصان ہو جائے تو جب تک اس کی صریح غلطی ثابت نہ ہو جائے، وہ ذمہ دار نہیں ہوگا۔ صریح غلطی کی صورت میں اسے دیت بھرنی ہوگی کیونکہ یہ بھی خطا کی ذیل میں آتا ہے۔ اگر ثابت ہو جائے کہ طبیب نے عمداً نقصان پہنچایا ہے تو قصاص جاری ہوگا۔ واللہ اعلم (۱) محقق کتاب نے اس روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے لیکن دیگر محققین نے شواہد کی بنا پر اسے حسن قرار دیا ہے۔ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ مذکورہ حدیث پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں: [لکن الحدیث حسن بمجموع الطریقین] یعنی دونوں طریق کی وجہ سے مجموعی طور پر مذکورہ حدیث حسن بن جاتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، حدیث: ۶۳۵) (۲) موجودہ دور میں عطائی قسم کے ڈاکٹر اور طبیب عام ہیں۔ ان طبیبوں اور ڈاکٹروں کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ حکومت وقت کی یہ شرعی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی قانون سازی کرے کہ کوئی اناڑی ڈاکٹر اور طبیب لوگوں کی زندگی اور ان کی صحت سے نہ کھیل سکے۔ عوام کو ایسے لوگوں کی دست برد سے بچنے کی خود بھی کوشش کرنی چاہیے۔ ایسے ڈاکٹروں اور طبیبوں کے ہاتھوں اگر کوئی مر جائے تو ان کے ذمے دیت ہوگی، تاہم مستند معالجین سے دوا لینا شرعاً جائز بلکہ مستحب ہے۔ اس حدیث مبارکہ سے علاج معالجے اور دوا کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے بشرطیکہ ڈاکٹر وطبیب مستند اور معروف ہو۔ (۳) اگر کوئی آدمی کسی ڈاکٹر یا طبیب کی بے پروائی یا عدم مہارت کی وجہ سے مر جائے تو اس پر دیت ہوگی جو اس کے نسبی رشتہ دار ادا کریں گے۔ قصاص نہیں ہوگا کیونکہ وہ مکمل طور پر قصور وار نہیں۔ آخر علاج کروانے والے کی رضا مندی ہی سے اس کا علاج ہوا، لہٰذا اناڑی شخص سے علاج کروانے میں متعلقہ شخص بھی مجرم ہے۔ طبیب اکیلا مجرم نہیں۔ (۴) مستند طبیب سے کوئی نقصان ہو جائے تو جب تک اس کی صریح غلطی ثابت نہ ہو جائے، وہ ذمہ دار نہیں ہوگا۔ صریح غلطی کی صورت میں اسے دیت بھرنی ہوگی کیونکہ یہ بھی خطا کی ذیل میں آتا ہے۔ اگر ثابت ہو جائے کہ طبیب نے عمداً نقصان پہنچایا ہے تو قصاص جاری ہوگا۔ واللہ اعلم