سنن النسائي - حدیث 4833

كِتَابُ الْقَسَامَةِ صِفَةُ شِبْهِ الْعَمْدِ وَعَلَى مَنْ دِيَةُ الْأَجِنَّةِ، وَشِبْهُ الْعَمْدِ، وَذِكْرُ اخْتِلَافِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ نُضَيْلَةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ صحيح أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا يَقُولُ: «كَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى كُلِّ بَطْنٍ عُقُولَةً، وَلَا يَحِلُّ لِمَوْلًى أَنْ يَتَوَلَّى مُسْلِمًا بِغَيْرِ إِذْنِهِ»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4833

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل قتل شبہ عمد کا بیان اور اس کا کہ پیٹ کے بچے اور قتل شبہ عمد کی دیت کس کے ذمے ہوگی؟ نیز ابراہیم عن عبید بن نضیہ کے حضرت مغیرہ سے مروی روایت پر راویوں کے اختلافِ الفاظ کا ذکر حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے یہ تحریر لکھوائی کہ ہر قبیلے کو اپنے لوگوں پر عائد شدہ دیتیں دینی ہوں گی، نیز کسی آزاد شدہ غلام کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے مولیٰ کی اجازت کے بغیر کسی اور مسلمان کو مولیٰ بنا لے۔
تشریح : (۱) عاقلہ (یعنی نسبی رشتہ دار) پر دیت ادا کرنا لازم ہے۔ (۲)’’عائد شدہ دیتیں‘‘ یعنی قتل خطا اور شبہ عمد کی دیتیں قاتل کے خاندان کو بھرنا پڑیں گی۔ اور باب کا مقصد بھی یہی ہے کہ قتل خطا یا شبہ عمد کی دیت صرف قاتل کے ذمے نہیں بلکہ پورے خاندان کی ذمے داری ہے۔ (۳) ’’اجازت کے بغیر‘‘ یہ قید ڈانٹ کے طور پر ہے ورنہ اجازت لے کر بھی کسی دوسرے کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا جیسے کوئی شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کو باپ نہیں بنا سکتا، خواہ باپ اجازت دے بھی دے۔ ویسے بھی کوئی سلیم الطبع شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کو باپ نہیں بنا سکتا، خواہ باپ اجازت دے بھی دے۔ ویسے بھی کوئی سلیم الطبع شخص نہ تو رشتہ بیچتا ہے، نہ ہبہ کرتا ہے کیونکہ رشتہ بیچنے اور ہبہ کرنے کی چیز نہیں۔ مولیٰ آزاد کردہ غلام کو بھی کہتے ہیں اور آزاد کرنے والے مالک کو بھی اور ان کے مابین تعلق کو ولا کہتے ہیں جو نسبی رشتے کے بعد مضبوط رشتہ ہے جو موت سے بھی ختم نہیں ہوتا حتیٰ کہ نسبی رشتہ دار نہ ہونے کی صورت میں وراثت بھی جاری ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کوئی شخص بھی ایسے معظم رشتے کو بدلنے کی اجازت نہیں دے گا۔ رسول اللہﷺ نے اس کی بابت فرمایا: [الولاء لحمۃ کلحمۃ النسب لا یباع ولا یوھب] ’’ولا بھی نسبی رشتہ داری کی طرح ہے، یہ نہ بیچی جا سکتی ہے اور نہ کسی کو ہبہ ہی کی جا سکتی ہے۔‘‘ (المستدرک للحاکم: ۴/ ۳۴۱) مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی اپنے آزاد کردہ غلام کو اجازت دے بھی دے تو بھی یہ تعلق ولا کسی دوسرے مسلمان کی طرف منتقل نہیں ہو سکتا۔ نہ کسی مسلمان کو لائق ہی ہے کہ وہ اسے قبول کرے۔ واللہ اعلم (۱) عاقلہ (یعنی نسبی رشتہ دار) پر دیت ادا کرنا لازم ہے۔ (۲)’’عائد شدہ دیتیں‘‘ یعنی قتل خطا اور شبہ عمد کی دیتیں قاتل کے خاندان کو بھرنا پڑیں گی۔ اور باب کا مقصد بھی یہی ہے کہ قتل خطا یا شبہ عمد کی دیت صرف قاتل کے ذمے نہیں بلکہ پورے خاندان کی ذمے داری ہے۔ (۳) ’’اجازت کے بغیر‘‘ یہ قید ڈانٹ کے طور پر ہے ورنہ اجازت لے کر بھی کسی دوسرے کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا جیسے کوئی شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کو باپ نہیں بنا سکتا، خواہ باپ اجازت دے بھی دے۔ ویسے بھی کوئی سلیم الطبع شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسرے کو باپ نہیں بنا سکتا، خواہ باپ اجازت دے بھی دے۔ ویسے بھی کوئی سلیم الطبع شخص نہ تو رشتہ بیچتا ہے، نہ ہبہ کرتا ہے کیونکہ رشتہ بیچنے اور ہبہ کرنے کی چیز نہیں۔ مولیٰ آزاد کردہ غلام کو بھی کہتے ہیں اور آزاد کرنے والے مالک کو بھی اور ان کے مابین تعلق کو ولا کہتے ہیں جو نسبی رشتے کے بعد مضبوط رشتہ ہے جو موت سے بھی ختم نہیں ہوتا حتیٰ کہ نسبی رشتہ دار نہ ہونے کی صورت میں وراثت بھی جاری ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کوئی شخص بھی ایسے معظم رشتے کو بدلنے کی اجازت نہیں دے گا۔ رسول اللہﷺ نے اس کی بابت فرمایا: [الولاء لحمۃ کلحمۃ النسب لا یباع ولا یوھب] ’’ولا بھی نسبی رشتہ داری کی طرح ہے، یہ نہ بیچی جا سکتی ہے اور نہ کسی کو ہبہ ہی کی جا سکتی ہے۔‘‘ (المستدرک للحاکم: ۴/ ۳۴۱) مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی اپنے آزاد کردہ غلام کو اجازت دے بھی دے تو بھی یہ تعلق ولا کسی دوسرے مسلمان کی طرف منتقل نہیں ہو سکتا۔ نہ کسی مسلمان کو لائق ہی ہے کہ وہ اسے قبول کرے۔ واللہ اعلم