سنن النسائي - حدیث 483

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَاب فَضْلِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ صحيح أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ نَصْرٍ عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعِشَاءِ حَتَّى نَادَاهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نَامَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ يُصَلِّي هَذِهِ الصَّلَاةَ غَيْرَكُمْ وَلَمْ يَكُنْ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ يُصَلِّي غَيْرَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 483

کتاب: نماز سے متعلق احکام و مسائل نماز عشاء کی فضیلت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک رات) عشاء کی نماز کو مؤخر کیا حتیٰ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو (مسجد سے) بلند آواز میں پکارا کہ عورتیں اور بچے سوگئے۔ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم باہر (مسجدمیں) تشریف لائے اور فرمایا: ’’تمھارے علاوہ کوئی شخص یہ نماز نہیں پڑھتا۔‘‘ اور (واقعتاً) ان دنوںاہل مدینہ کے علاوہ کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا تھا۔
تشریح : (۱)ضرورت پڑنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلند آواز سے پکارنا جائز تھا۔ آپ کی موجودگی میں بلاضرورت اونچی آواز سے بولنا گناہ تھا، گستاخی تھی اور موجب حرمان تھا، پھر یہ واقعہ سورۂ حجرات کے نزول سے پہلے اسلام کے ابتدائی ایام کا ہے جبکہ اونچی آواز سے پکارنے کی ممانعت اور اس پر عمل کی بربادی کی وعید سورۂ حجرات میں آئی ہے۔ (۲)’’عورتیں اور بچے سوگئے۔‘‘ یعنی وہ عورتیں جو باجماعت نماز کے لیے مسجد میں آئی تھیں اور ان کے ساتھ ان کے چھوٹے بجے بھی تھے۔ یا گھروں میں عورتیں اور بچے سوگئے۔ دروازہ کھلوانا مشکل ہوگا۔ لیکن پہلا مفہوم ہی درست ہے۔ (۳)’’تمھارے علاوہ کوئی شخص یہ نماز نہیں پڑھتا۔‘‘ کیونکہ عیسائی و یہودی تو عشاء کی نماز پڑھتے ہی نہیں، صرف مسلمان ہی پڑھتے ہیں اور اس وقت اسلام مدینے سے باہر نہیں پھیلا تھا یا پھر مکے میں چند مجبورومقہور مسلمان تھے جن کو علانیہ نمازباجماعت پڑھنے کی ہمت ہی نہ تھی، چھپ چھپا کر پڑھتے تھے۔ اس جملے کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اتنی تاخیر کے ساتھ مسجدنبوی کے علاوہ کہیں نماز نہیں پڑھی جاتی کیونکہ مدینہ منورہ کی دیگر مساجد میں لوگ جلدی نماز پڑھ کر سوجاتے تھے۔ اس صورت میں ’’تم‘‘ سے مراد مسجدنبوی کے نمازی ہوں گے، پہلی صورت میں عام مسلمان مراد ہوں گے۔ واللہ اعلم۔ (۴)اس حدیث سے بظاہر امام صاحب کا استدلال واضح نہیں ہے لیکن آپ کا یہ فرمانا: ’’تمھارے علاوہ کوئی شخص یہ نماز نہیں پڑھتا‘‘ اس امت کی خصوصیت واضح کرتا ہے، اس لیے اس نماز کا اہتمام ضروری ہے۔ نماز کے لیے منتظر رہنا اس کے اہتمام میں شامل ہے، لہٰذا یہ عمل اس کی فضیلت پر دلالت کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔ (۱)ضرورت پڑنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلند آواز سے پکارنا جائز تھا۔ آپ کی موجودگی میں بلاضرورت اونچی آواز سے بولنا گناہ تھا، گستاخی تھی اور موجب حرمان تھا، پھر یہ واقعہ سورۂ حجرات کے نزول سے پہلے اسلام کے ابتدائی ایام کا ہے جبکہ اونچی آواز سے پکارنے کی ممانعت اور اس پر عمل کی بربادی کی وعید سورۂ حجرات میں آئی ہے۔ (۲)’’عورتیں اور بچے سوگئے۔‘‘ یعنی وہ عورتیں جو باجماعت نماز کے لیے مسجد میں آئی تھیں اور ان کے ساتھ ان کے چھوٹے بجے بھی تھے۔ یا گھروں میں عورتیں اور بچے سوگئے۔ دروازہ کھلوانا مشکل ہوگا۔ لیکن پہلا مفہوم ہی درست ہے۔ (۳)’’تمھارے علاوہ کوئی شخص یہ نماز نہیں پڑھتا۔‘‘ کیونکہ عیسائی و یہودی تو عشاء کی نماز پڑھتے ہی نہیں، صرف مسلمان ہی پڑھتے ہیں اور اس وقت اسلام مدینے سے باہر نہیں پھیلا تھا یا پھر مکے میں چند مجبورومقہور مسلمان تھے جن کو علانیہ نمازباجماعت پڑھنے کی ہمت ہی نہ تھی، چھپ چھپا کر پڑھتے تھے۔ اس جملے کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اتنی تاخیر کے ساتھ مسجدنبوی کے علاوہ کہیں نماز نہیں پڑھی جاتی کیونکہ مدینہ منورہ کی دیگر مساجد میں لوگ جلدی نماز پڑھ کر سوجاتے تھے۔ اس صورت میں ’’تم‘‘ سے مراد مسجدنبوی کے نمازی ہوں گے، پہلی صورت میں عام مسلمان مراد ہوں گے۔ واللہ اعلم۔ (۴)اس حدیث سے بظاہر امام صاحب کا استدلال واضح نہیں ہے لیکن آپ کا یہ فرمانا: ’’تمھارے علاوہ کوئی شخص یہ نماز نہیں پڑھتا‘‘ اس امت کی خصوصیت واضح کرتا ہے، اس لیے اس نماز کا اہتمام ضروری ہے۔ نماز کے لیے منتظر رہنا اس کے اہتمام میں شامل ہے، لہٰذا یہ عمل اس کی فضیلت پر دلالت کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔