سنن النسائي - حدیث 4825

كِتَابُ الْقَسَامَةِ بَابُ دِيَةِ جَنِينِ الْمَرْأَةِ صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَلَفٌ وَهُوَ ابْنُ تَمِيمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ نُضَيْلَةَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ: أَنَّ امْرَأَةً ضَرَبَتْ ضَرَّتَهَا بِعَمُودِ فُسْطَاطٍ فَقَتَلَتْهَا، وَهِيَ حُبْلَى، فَأُتِيَ فِيهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَصَبَةِ الْقَاتِلَةِ بِالدِّيَةِ، وَفِي الْجَنِينِ غُرَّةً، فَقَالَ عَصَبَتُهَا: أَدِي مَنْ لَا طَعِمَ، وَلَا شَرِبَ، وَلَا صَاحَ فَاسْتَهَلَّ، فَمِثْلُ هَذَا يُطَلَّ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَسَجْعٌ كَسَجْعِ الْأَعْرَابِ؟»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4825

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل عورت کے پیٹ کے بچے کی دیت حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے اپنی سوکن کو خیمے کی لکڑی دے ماری اور اسے قتل کر دیا جبکہ وہ حاملہ تھی۔ (لہٰذا حمل بھی ضائع ہوگیا)۔ یہ مقدمہ نبی اکرمﷺ کے پاس لایا گیا تو رسول اللہﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ قاتل عورت کے عصبے (مقتولہ کی) دیت بھریں، نیز پیٹ کے بچے کے بدلے غرہ دیں۔ اس عورت کا عصبہ کہنے لگا: کیا میں ایسے بچے کی دیت دوں جس نے پیا نہ کھایا، چیخا نہ چلایا؟ ایسا بچہ تو کسی شمار وقطار میں نہیں ہونا چاہیے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’یہ تو اعرابیوی جیسی تک بندی کرتا ہے۔‘‘
تشریح : (۱) ’’ایسا بچہ‘‘ یعنی جو زندہ پیدا نہیں ہوا بلکہ پیدا ہونے سے پہلے فوت ہوگیا۔ (۲) ’’اعرابیوں جیسی‘‘ اعرابی لوگ فصیح وبلیغ زبان بولتے تھے اور اعلیٰ درجے کے شاعر ہوتے تھے، نیز وہ مسجع کلام کیا کرتے تھے۔ (۳) ’’تک بندی‘‘ یعنی مسجع کلام جس کے جملے ہم آہنگ ہوں۔ ہر جملے کے آخر میں ایک جیسے الفاظ آئیں جیسے اشعار میں ہوتا ہے مگر وزن ایک نہیں ہوتا۔ (۴) اس روایت میں ہے کہ اس عورت نے خیمے کی چوب، یعنی لکڑی ماری تھی جبکہ بعض روایات میں ہے کہ اس نے پتھر مارا تھا۔ ان میں تطبیق اس طرح ہے کہ ممکن ہے اس نے دونوں چیزیں ماری ہوں، کسی راوی نے ایک چیز بیان کر دی کسی نے دوسری۔ واللہ اعلم (۱) ’’ایسا بچہ‘‘ یعنی جو زندہ پیدا نہیں ہوا بلکہ پیدا ہونے سے پہلے فوت ہوگیا۔ (۲) ’’اعرابیوں جیسی‘‘ اعرابی لوگ فصیح وبلیغ زبان بولتے تھے اور اعلیٰ درجے کے شاعر ہوتے تھے، نیز وہ مسجع کلام کیا کرتے تھے۔ (۳) ’’تک بندی‘‘ یعنی مسجع کلام جس کے جملے ہم آہنگ ہوں۔ ہر جملے کے آخر میں ایک جیسے الفاظ آئیں جیسے اشعار میں ہوتا ہے مگر وزن ایک نہیں ہوتا۔ (۴) اس روایت میں ہے کہ اس عورت نے خیمے کی چوب، یعنی لکڑی ماری تھی جبکہ بعض روایات میں ہے کہ اس نے پتھر مارا تھا۔ ان میں تطبیق اس طرح ہے کہ ممکن ہے اس نے دونوں چیزیں ماری ہوں، کسی راوی نے ایک چیز بیان کر دی کسی نے دوسری۔ واللہ اعلم