سنن النسائي - حدیث 4821

كِتَابُ الْقَسَامَةِ بَابُ دِيَةِ جَنِينِ الْمَرْأَةِ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: «قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنِينِ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي لِحْيَانَ سَقَطَ مَيِّتًا بِغُرَّةِ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ، ثُمَّ إِنَّ الْمَرْأَةَ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا بِالْغُرَّةِ، تُوُفِّيَتْ، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَنَّ مِيرَاثَهَا لِبَنِيهَا وَزَوْجِهَا، وَأَنَّ الْعَقْلَ عَلَى عَصَبَتِهَا»

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 4821

کتاب: قسامت ‘قصاص اور دیت سے متعلق احکام و مسائل عورت کے پیٹ کے بچے کی دیت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ نے بنو لحیان کی ایک عورت کے پیٹ کے بچے کے بارے میں جو (چوٹ کی وجہ سے) ساقط ہو کر مر گیا تھا، فیصلہ فرمایا کہ اس کی دیت غرہ ہوگی، یعنی غلام یا لونڈی۔ پھر جس عورت کے لیے (جس کے بچے کی دیت کی بابت) غرہ کا فیصلہ کیا تھا، وہ مر گئی تو رسول اللہﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ اس کی وراثت اس کے بیٹوں اور خاوند کو ملے گی۔ اور اس (قاتلہ) کے ذمے واجب الادا دیت اس (قاتلہ) کے عصبہ کے ذمے ہوگی۔
تشریح : (۱) اس حدیث میں بھی جنین کی دیت غلام یا لونڈی بیان ہوئی ہے، تاہم اگر جنین زندہ پیٹ سے باہر آیا، پھر اسی لگائی گئی چوٹ کے اثر کی وجہ سے فوت ہوگیا تو اس صورت میں بڑے شخص والی مکمل دیت ادا کری پڑے گی۔ چوٹ جان بوجھ کر لگائی گئی ہو یا غلطی سے لگی ہو، دونوں صورتوں میں مسئلہ اسی طرح ہے جیسے بیان کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ القبی شرح سنن النسائی لاتبوبی: ۳۶/ ۲۱۹، ۲۲۰) (۲) اس حدیث مبارکہ کے الفاظ [ان المراۃ التی قضی علیھا بالغرۃ توفیت] سے بعض اہل علم کو یہ وہم ہوا ہے کہ اس سے مراد قاتلہ ہے، اس لیے انھوں نے ان الفاظ کے معنی کیے ہیں: ’’پھر جس عورت کے ذمے غرہ (دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، وہ مر گئی۔‘‘ یہ بات درست نہیں بلکہ حقیقت واقعہ کے خلاف ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مرنے والی قاتلہ نہیں بلکہ وہ تھی جس کا جنین گرایا گیا تھا کیونکہ احادیث صحیحہ میں یہ صراحت موجود کہ مرنے والی قاتلہ نہیں بلکہ دوسری تھی جسے پتھر مار کر اس کا جنین گرا دیا گیا تھا اور اسے قتل کر دیا گیا تھا۔ حدیث کے الفاظ ہیں: [اقتتلت امراتان من ھذیل فرمت احداھما الاخری بحجر فقتلتھا وما فی بطنھا] ’’ہذیل قبیلے کی دو عورتیں لڑ پڑیں۔ ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر دے مارا اور اسے قتل کر دیا اور اس بچے کو بھی جو اس کے پیٹ میں تھا۔‘‘ (صحیح البخاری، الدیات، باب جنین المراۃ… حدیث: ۶۹۱۰، وصحیح مسلم، القسامۃ والمحاربین، باب دیۃ الجنین…، حدیث: ۱۶۸۱ (۳۶) التی قصی علیھا بالغرۃ کا مفہوم ہے: التی قضی لھا بالغرۃ۔ مطلب یہ کہ علیھا بمعنیے لھا ہے۔ صحیح بخاری میں یہ الفاظ ہیں: [ثم ان المراۃ التی قضی لھا بالغرۃ توفیت] دیکھیے: (صحیح البخاری، الفرائض، باب میراث المرأۃ والزوج مع الولد وغیرہ، حدیث: ۶۷۴۰) بعض اہل علم کو حدیث مبارکہ کے آخری جملے [قضی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بان میراثھا لبنیھا وزوجھا، وان العقل علی عصبتھا] سے یہ وہم لگا ہے کہ مرنے والی قاتلہ ہی ہے۔ اسی کی وراثت کے حق دار اس کے بیٹے اور اس کا خاوند ہیں اور اس کی دیت اس کے عصبہ کے ذمہ ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث سے اس شبہ اور وہم کا کلیتاً ازالہ ہو جاتا ہے۔ اس کے الفاظ اس قدر واضح اور صریح ہیں کہ وہم کا تصور ہی نہیں ہوتا۔ الفاظ یہ ہیں: [فجعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیۃ المقتولۃ علی عصبۃ القاتلۃ وغرۃ لما فی بطنھا] ’’پھر رسول اللہﷺ نے مقتولہ کی دیت، قاتلہ کے عصبہ کے ذمے لگائی اور اس (مقتولہ) کے پیٹ کے بچے کی دیت ایک غرہ مقرر فرمائی۔‘‘ (صحیح مسلم، القسامۃ، والمہاربین، باب دیۃ الجنین…، حدیث: ۱۶۸۲) مذکورہ بالا تصریحات سے تمام شبہات ختم ہو جاتے ہیں۔ (۳) قتل خطا شبہ عمد میں دیت قاتل کے ذمے ہوتی ہے لیکن اس کی ادائیگی میں اس کے تمام نسبی رشتہ دار شریک ہوں گے۔ قانونی طور پر ان سب کے ذمے قسط وار رقم مقرر کی جائے گی اور وہ ادا کرنے کے پابند ہوں گے کیونکہ قتل خطا میں قاتل قصور وار نہیں ہوتا یا زیادہ قصور وار نہیں ہوتا۔ البتہ عمد کی صورت میں دیت قاتل کے ذمے ہوگی اور وہی ادائیگی کا ذمہ دار ہے کیونکہ وہ مکمل قصور وار ہوتا ہے، لہٰذا اسے ہی سزا بھگتنا ہوگی۔ واللہ اعلم (۱) اس حدیث میں بھی جنین کی دیت غلام یا لونڈی بیان ہوئی ہے، تاہم اگر جنین زندہ پیٹ سے باہر آیا، پھر اسی لگائی گئی چوٹ کے اثر کی وجہ سے فوت ہوگیا تو اس صورت میں بڑے شخص والی مکمل دیت ادا کری پڑے گی۔ چوٹ جان بوجھ کر لگائی گئی ہو یا غلطی سے لگی ہو، دونوں صورتوں میں مسئلہ اسی طرح ہے جیسے بیان کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ القبی شرح سنن النسائی لاتبوبی: ۳۶/ ۲۱۹، ۲۲۰) (۲) اس حدیث مبارکہ کے الفاظ [ان المراۃ التی قضی علیھا بالغرۃ توفیت] سے بعض اہل علم کو یہ وہم ہوا ہے کہ اس سے مراد قاتلہ ہے، اس لیے انھوں نے ان الفاظ کے معنی کیے ہیں: ’’پھر جس عورت کے ذمے غرہ (دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، وہ مر گئی۔‘‘ یہ بات درست نہیں بلکہ حقیقت واقعہ کے خلاف ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مرنے والی قاتلہ نہیں بلکہ وہ تھی جس کا جنین گرایا گیا تھا کیونکہ احادیث صحیحہ میں یہ صراحت موجود کہ مرنے والی قاتلہ نہیں بلکہ دوسری تھی جسے پتھر مار کر اس کا جنین گرا دیا گیا تھا اور اسے قتل کر دیا گیا تھا۔ حدیث کے الفاظ ہیں: [اقتتلت امراتان من ھذیل فرمت احداھما الاخری بحجر فقتلتھا وما فی بطنھا] ’’ہذیل قبیلے کی دو عورتیں لڑ پڑیں۔ ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر دے مارا اور اسے قتل کر دیا اور اس بچے کو بھی جو اس کے پیٹ میں تھا۔‘‘ (صحیح البخاری، الدیات، باب جنین المراۃ… حدیث: ۶۹۱۰، وصحیح مسلم، القسامۃ والمحاربین، باب دیۃ الجنین…، حدیث: ۱۶۸۱ (۳۶) التی قصی علیھا بالغرۃ کا مفہوم ہے: التی قضی لھا بالغرۃ۔ مطلب یہ کہ علیھا بمعنیے لھا ہے۔ صحیح بخاری میں یہ الفاظ ہیں: [ثم ان المراۃ التی قضی لھا بالغرۃ توفیت] دیکھیے: (صحیح البخاری، الفرائض، باب میراث المرأۃ والزوج مع الولد وغیرہ، حدیث: ۶۷۴۰) بعض اہل علم کو حدیث مبارکہ کے آخری جملے [قضی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بان میراثھا لبنیھا وزوجھا، وان العقل علی عصبتھا] سے یہ وہم لگا ہے کہ مرنے والی قاتلہ ہی ہے۔ اسی کی وراثت کے حق دار اس کے بیٹے اور اس کا خاوند ہیں اور اس کی دیت اس کے عصبہ کے ذمہ ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث سے اس شبہ اور وہم کا کلیتاً ازالہ ہو جاتا ہے۔ اس کے الفاظ اس قدر واضح اور صریح ہیں کہ وہم کا تصور ہی نہیں ہوتا۔ الفاظ یہ ہیں: [فجعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیۃ المقتولۃ علی عصبۃ القاتلۃ وغرۃ لما فی بطنھا] ’’پھر رسول اللہﷺ نے مقتولہ کی دیت، قاتلہ کے عصبہ کے ذمے لگائی اور اس (مقتولہ) کے پیٹ کے بچے کی دیت ایک غرہ مقرر فرمائی۔‘‘ (صحیح مسلم، القسامۃ، والمہاربین، باب دیۃ الجنین…، حدیث: ۱۶۸۲) مذکورہ بالا تصریحات سے تمام شبہات ختم ہو جاتے ہیں۔ (۳) قتل خطا شبہ عمد میں دیت قاتل کے ذمے ہوتی ہے لیکن اس کی ادائیگی میں اس کے تمام نسبی رشتہ دار شریک ہوں گے۔ قانونی طور پر ان سب کے ذمے قسط وار رقم مقرر کی جائے گی اور وہ ادا کرنے کے پابند ہوں گے کیونکہ قتل خطا میں قاتل قصور وار نہیں ہوتا یا زیادہ قصور وار نہیں ہوتا۔ البتہ عمد کی صورت میں دیت قاتل کے ذمے ہوگی اور وہی ادائیگی کا ذمہ دار ہے کیونکہ وہ مکمل قصور وار ہوتا ہے، لہٰذا اسے ہی سزا بھگتنا ہوگی۔ واللہ اعلم